Sunday 31 March 2013

قصہ ابو نصر

کسی جگہ ابو نصر الصیاد نامی ایک شخص، اپنی بیوی اور ایک بچے کے ساتھ غربت و افلاس کی زندگی بسر کر رہا تھا۔ ایک دن وہ اپنی بیوی اور بچے کو بھوک سے نڈھال اور بلکتا روتا گھر میں چھوڑ کر خود غموں سے چور کہیں جا رہا تھا کہ راہ چلتے اس کا سامنا ایک عالم دین احمد بن مسکین سے ہوا، جسے دیکھتے ہی ابو نصر نے کہا؛ اے شیخ میں دکھوں کا مارا ہوں اور غموں سے تھک گیا ہوں۔
شیخ نے کہا میرے پیچھے چلے آؤ، ہم دونوں سمندر پر چلتے ہیں۔
سمندر پر پہنچ کر شیخ صاحب نے اُسے دو رکعت نفل نماز پڑھنے کو کہا، نماز پڑھ چکا تو اُسے ایک جال دیتے ہوئے کہا اسے بسم اللہ پڑھ کر سمندر میں پھینکو۔
جال میں پہلی بار ہی ایک بڑی ساری عظیم الشان مچھلی پھنس کر باہر آ گئی۔ شیخ صاحب نے ابو نصر سے کہا، اس مچھلی کو جا کر فروخت کرو اور حاصل ہونے والے پیسوں سے اپنے اہل خانہ کیلئے کچھ کھانے پینے کا سامان خرید لینا۔
ابو نصر نے شہر جا کر مچھلی فروخت کی، حاصل ہونے والے پیسوں سے ایک قیمے والا اور ایک میٹھا پراٹھا خریدا اور سیدھا شیخ احمد بن مسکین کے پاس گیا اور اسے کہا کہ حضرت ان پراٹھوں میں سے کچھ لینا قبول کیجئے۔ شیخ صاحب نے کہا اگر تم نے اپنے کھانے کیلئے جال پھینکا ہوتا تو کسی مچھلی نے نہیں پھنسنا تھا، میں نے تمہارے ساتھ نیکی  گویا اپنی بھلائی کیلئے کی تھی نا کہ کسی اجرت کیلئے۔ تم یہ پراٹھے لے کر جاؤ اور اپنے اہل خانہ کو کھلاؤ۔
ابو نصر پراٹھے لئے خوشی خوشی اپنے گھر کی طرف جا رہا تھا کہ اُس نے راستے میں بھوکوں ماری ایک عورت کو روتے دیکھا جس کے پاس ہی اُس کا بیحال بیٹا بھی بیٹھا تھا۔ ابو نصر نے اپنے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے پراٹھوں کو دیکھا اور اپنے آپ سے کہا کہ اس عورت اور اس کے بچے اور اُس کے اپنے بچے اور بیوی میں کیا فرق ہے، معاملہ تو ایک جیسا ہی ہے، وہ بھی بھوکے ہیں اور یہ بھی بھوکے ہیں۔ پراٹھے کن کو دے؟ عورت کی آنکھوں کی طرف دیکھا تو اس کے بہتے آنسو نا دیکھ سکا اور اپنا سر جھکا لیا۔ پراٹھے عوررت کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا یہ لو؛ خود بھی کھاؤ اور اپنے بیٹے کو بھی بھی کھلاؤ۔ عورت کے چہرے پر خوشی اور اُس کے بیٹے کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
ابو نصر غمگین دل لئے واپس اپنے گھر کی طرف یہ سوچتے ہوئے چل دیا کہ اپنے بھوکے بیوی بیٹے کا کیسے سامنا کرے گا؟
گھر جاتے ہوئے راستے میں اُس نے ایک منادی والا دیکھا جو کہہ رہا تھا؛ ہے کوئی جو اُسے ابو نصر سے ملا دے۔ لوگوں نے منادی والے سے کہا یہ دیکھو تو، یہی تو ہے ابو نصر۔ اُس نے ابو نصر سے کہا؛ تیرے باپ نے میرے پاس آج سے بیس سال پہلے تیس ہزار درہم امانت رکھے تھے مگر یہ نہیں بتایا تھا کہ ان پیسوں کا کرنا کیا ہے۔ جب سے تیرا والد فوت ہوا ہے میں ڈھونڈتا پھر رہا ہوں کہ کوئی میری ملاقات تجھ سے کرا دے۔ آج میں نے تمہیں پا ہی لیا ہے تو یہ لو تیس ہزار درہم، یہ تیرے باپ کا مال ہے۔
ابو نصر کہتا ہے؛ میں بیٹھے بٹھائے امیر ہو گیا۔ میرے کئی کئی گھر بنے اور میری تجارت پھیلتی چلی گئی۔ میں نے کبھی بھی اللہ کے نام پر دینے میں کنجوسی نا کی، ایک ہی بار میں شکرانے کے طور پر ہزار ہزار درہم صدقہ دے دیا کرتا تھا۔ مجھے اپنے آپ پر رشک آتا تھا کہ کیسے فراخدلی سے صدقہ خیرات کرنے والا بن گیا ہوں۔
ایک بار میں نے خواب دیکھا کہ حساب کتاب کا دن آن پہنچا ہے اور میدان میں ترازو نصب کر دیا گیاہے۔ منادی کرنے والے نے آواز دی ابو نصر کو لایا جائے اور اُس کے گناہ و ثواب تولے جائیں۔
  کہتا ہے؛ پلڑے میں ایک طرف میری نیکیاں اور دوسری طرف میرے گناہ رکھے گئے تو گناہوں کا پلڑا بھاری تھا۔
میں نے پوچھا آخر کہاں گئے ہیں میرے صدقات جو میں اللہ کی راہ میں دیتا رہا تھا؟
تولنے والوں نے میرے صدقات نیکیوں کے پلڑے میں رکھ دیئے۔ ہر ہزار ہزار درہم کے صدقہ کے نیچے نفس کی شہوت، میری خود نمائی کی خواہش اور ریا کاری کا ملمع چڑھا ہوا تھا جس نے ان صدقات کو روئی سے بھی زیادہ ہلکا بنا دیا تھا۔ میرے گناہوں کا پلڑا ابھی بھی بھاری تھا۔ میں رو پڑا اور کہا، ہائے رے میری نجات کیسے ہوگی؟
منادی والے نے میری بات کو سُنا تو پھر پوچھا؛ ہے کوئی باقی اس کا عمل تو لے آؤ۔
میں نے سُنا ایک فرشتہ کہہ رہا تھا ہاں اس کے دیئے ہوئے دو پُراٹھے ہیں جو ابھی تک میزان میں نہیں رکھے گئے۔ وہ دو پُراٹھے ترازو پر رکھے گئے تو نیکیوں کا پلڑا اُٹھا ضرور مگر ابھی نا تو برابر تھا اور نا ہی زیادہ۔
مُنادی کرنے والے نے پھر پوچھا؛ ہے کچھ اس کا اور کوئی عمل؟ فرشتے نے جواب دیا ہاں اس کیلئے ابھی کچھ باقی ہے۔ منادی نے پوچھا وہ کیا؟ کہا اُس عورت کے آنسو جسے اس نے اپنے دو پراٹھے دیئے تھے۔
عورت کے آنسو نیکیوں کے پلڑے میں ڈالے گئے جن کے پہاڑ جیسے وزن نے ترازو کے نیکیوں والے پلڑے کو گناہوں کے پلڑے کے برابر لا کر کھڑا کر دیا۔ ابو نصر کہتا ہے میرا دل خوش ہوا کہ اب نجات ہو جائے گی۔
منادی نے پوچھا ہے کوئی کچھ اور باقی عمل اس کا؟
فرشتے نے کہا؛ ہاں، ابھی اس بچے کی مُسکراہٹ کو پلڑے میں رکھنا باقی ہے جو پراٹھے لیتے ہوئے اس کے چہرے پر آئی تھی۔ مسکراہٹ کیا پلڑے میں رکھی گئی نیکیوں والا پلڑا بھاری سے بھاری ہوتا چلا گیا۔ منادی کرنے ولا بول  اُٹھا یہ شخص نجات پا گیا ہے۔
ابو نصر کہتا ہے؛ میری نیند سے آنکھ کھل گئی۔ میں نے اپنے آپ سے کہا؛ اگر میں نے اپنے کھانے کیلئے جال پھینکا ہوتا تو کسی مچھلی نے نہیں پھنسنا تھا اور اپنے کھانے کیلئے پراٹھے خریدے ہوتے تو آج نجات بھی نہیں ہونی تھی۔

Wednesday 27 March 2013

نصیحت


تسکین نا ہو جس سے
 وہ راز بدل ڈالو
جو راز نا رکھ پائے،
 ہمراز بدل ڈالو
تم نے بھی سنی ہو گی
 بڑی عام کہاوت ہے
انجام کا ہو خطرہ ،
 آغاز بدل ڈالو
پر سوز دلوں کو جو
 مسکان نا دے پائے
سر ہی نا ملے جس میں
 وہ ساز بدل ڈالو
دشمن کے ارادوں کو
 ہے ظاہر اگر کرنا
تم کھیل وہی کھیلو،
 انداز بدل ڈالو
اے دوست کرو ہمت
کچھ دور سویرا ہے
اگر چاہتے ہو منزل
 تو پرواز بدل ڈالو

Wednesday 20 March 2013

Qasmi sahib ki ghazal


روٹھنا مجھ سے مگر خود کو سزا مت دینا
زلف  رخسار سے کھیلے تو ہٹا مت دینا

میرے اس جرم کی قسطوں میں سزا مت دینا
بے وفائی کا صلہ یار وفا مت دینا

کون آئے گا دہکتے ہوئے شعلوں کے پرے
تھک کے سو جاؤں تو اے خواب جگہ مت دینا

ساری دنیا کو جلا دے گا ترا آگ کا کھیل
بھڑکے جذبات کو آنچل کی ہوا مت دینا

خون ہو جائیں نہ قسمت کی لکیریں تیری
میلے ہاتھوں کو کبھی رنگے حنا مت دینا

اوچھی پلکوں پہ حسیں خواب سجانے والے
میری آنکھوں سے میری نیند اڑا مت دینا

سوچ لینا کوئی تاویل مناسب لیکن
اس ہتھیلی سے مرا نام مٹا مت دینا

Hamid nagpori ki ghazal

فکر پابندئ حالات سے آگے نہ بڑھی
زندگی قیدِ مقامات سے آگے نہ بڑھی

ہم سمجھتے تھے غمِ دل کا مداو ا ہوگی
وہ نظر پرسشِ حالات سے آگے نہ بڑھی

اُن کی خاموشی بھی افسانہ در افسانہ بنی
ہم نے جو بات کہی بات سے آگے نہ بڑھی

سرخوشی بن نہ سکی زہرِ الم کا تریاق
زندگی تلخئ حالات سے آگے نہ بڑھی

عشق ہر مر حلۂ غم کی حدیں توڑ چُکا
عقل اندیشۂ حالات سے آگے نہ بڑھی

ایسی جنت کی ہوس تجھ کو مُبارک زاہد
جو ترے حسنِ خیالات سے آگے نہ بڑھی

نگہِ دوست میں توقیر نہیں اُس کی حمیدؔ
 وہ تمنّا جو مناجات سے آگے نہ بڑھی

Friday 15 March 2013

Alfaz kay moti

اسی موضوع پر ایک بار لیکچر دیتے ہوئے انہوں نے حاضرین سے فرمائش کی کہ سب لوگ اپنے اپنے موبائل فون نکال کر میسیج میں (آئی لو یو) لکھیں اور اپنی اپنی گھر والی کو یہ میسیج بھیجیں۔ کچھ لوگوں نے واقعی یہ پیغام لکھ کر روانہ کیا، ایک منٹ سے بھی کم وقت میں ان لوگوں کے موبائل فون بجنے یا پیغام واپس آنا شروع ہوگئے۔ ایک خاتون نے لکھا تھا کہ یہ فقرہ سننے کیلئے تو میں ترس ہی گئی تھی میں بھی تم سے پیار کرتی ہوں اور مرتے دم تک تمہارے اس پیغام کو یاد رکھونگی۔  ایک نے یوں لکھا تھا: تم خیریت سے تو ہو ںاں؟ ہسپتال تو نہیں پہنچے پڑے، مجھے فورا اپنی خیریت سے آگاہ کرو۔  جن لوگوں کو پیغامات کی بجائے فون آئے تھے ان میں ایک نے تو اس بات پر اصرار کیا تھا کہ ابو محمد تمہارا موبائل کہیں چوری تو نہیں ہوگیا کیونکہ مجھے ابھی ایک عجیب قسم کا پیغام ملا ہے۔
٭٭٭٭٭٭
بچے کو غصے میں ہلکی سی چپت لگا دیں تو رو پڑے گا مگر مذاق میں مارے ہوئے زور کے تھپڑ سے بھی ہنستا رہے گا۔ نفسیاتی درد جسمانی درد سے زیادہ شدید ہوتا ہے اور زبان کا لگا ہوا زخم کلہاڑی کے زخم سے زیادہ دردناک
٭٭٭٭٭٭
بچپن کی خوبصورت یادوں میں سے ایک یاد: جب نیند آئی تو گھر کے کسی کونے کھدرے میں گر پڑ کر سو گئے مگر جاگے تو اپنے بستر پر ہوا کرتے تھے۔۔۔۔۔۔
اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھا، (سورة الإسراء – آیۃ 24)

٭٭٭٭٭٭
ایک آدمی ہمیشہ کوشش کرتا تھا کہ لوگ اسے اہم شخص سمجھیں۔۔ ایک بار اس نے حسب عادت دروازے سے کسی کو اندر آتے دیکھا تو ریسیور اٹھا کر ایسی اداکاری کرنا شروع کی جیسے کسی بڑے آدمی سے بات کر رہا ہو۔ جب وہ آدمی اندر آ چکا تو اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا تم انتظار کرو میں ایک مسئلہ سلجھا رہا ہوں تم سے بعد میں بات کرتا ہوں۔ اور ٹیلیفون پر کئی منٹ باتیں کرتا رہا۔ پھر ریسیور کو واپس کریڈل پر رکھتے ہوئے اس آدمی سے پوچھا بتاؤ کیا کام ہے؟ ۔۔۔ اس آدمی نے کہا، محترم، میں محکمہ ٹیلیفون کی طرف سے آیا ہوں تاکہ تمہارا خراب ٹیلیفون ٹھیک کر سکوں۔
دیکھیئے آپ جیسے ہیں ویسے ہی بہت اچھے ہیں، لوگ بناوٹ کو پہچان لیتے ہیں، بہتر ہے اپنے اصل پر ہی رہیں۔

٭٭٭٭٭٭
چینی اور نمک دونوں کی شکل میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا، دونوں کا ایک جیسا ہی رنگ ہوتا ہے، ہاں استعمال کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ نمک کیا ہے اور چینی کون!
بس کچھ ایسا ہی معاملہ انسانوں کے ساتھ ہوتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭
اگر آپ کے پاس ایک سیب ہو اور میرے پاس بھی ایک، اور ہم ان سیبوں کا آپس میں تبادلہ کر لیں،  تو کچھ بھی نہیں ہوگا،  آپ کے پاس بھی ایک سیب رہے گا اور  میرے پاس بھی ایک سیب رہے گا۔
اگر آپ کے پاس ایک اچھا خیال (آئیڈیا) ہو اور میرے پاس بھی ایک اچھا خیال ہو، اور ہم اپنے اپنے خیالات کا آپس میں تبادلہ کریں تو آپ کے پاس دو خیالات ہوجائیں گے اور میرے پاس بھی دو خیالات۔

گویا علم / خیالات / تجربہ بانٹنے سے تو بڑھتا ہے، ہیں ناں!
٭٭٭٭٭٭
آپ جانتے ہیں ناں کہ؛
اندھا اس دنیا کا نظارہ کرنا چاہتا ہے خواہ ایک لمحے کیلئے ہی سہی، بہرہ سننے کیلئے بیتاب ہوتا ہے چاہے ایک لفظ ہی کیوں نا ہو، مفلوج چلنا چاہتا ہے بھلے ایک ہی قدم کیوں نا ہو، بستر پر مریض بیٹھنے اٹھنے اور چلنے کی حسرت لیئے پڑا ہوتا ہے
اور آپ تو خیر سے سنتے ، بولتے، چلتے پھرتے صحتمند ہیں،،،،  تو پھر الحمد للہ کہیئے ناں
٭٭٭٭٭٭
مولوی صاحب نے اپنی تقریر میں کہا:
میری زندگی کے سب سے سہانے شب و روز جس عورت کے بازوؤں میں گزرے وہ عورت میری بیوی نہیں تھی۔ حاضرین کو سانپ سونگھ گیا کہ مولوی کہہ کیا رہا ہے؟
تھوڑے توقف کے بعد مولوی صاحب نے کہا؛ جی، وہ عورت کوئی اور نہیں میری ماں تھی۔
ایک صاحب کو یہ بات بہت اچھی لگی، اس نے سوچا کیوں ناں گھر جا کر اس کا تجربہ کر لے۔ سیدھا کچن میں گیا جہاں اس کی بیوی انڈے فرائی کر رہی تھی، اسے کہا کہ میری زندگی کے سب سے سہانے شب و روز جس عورت کے بازوؤں میں گزرے وہ عورت کم از کم تم نہیں تھی۔
چار دن کے بعد جب ان صاحب کے منہ سے پٹیاں اتاری گئیں اور تیل کی جلن کچھ کم ہوئی تو بولے؛ کاپی پیسٹ ہمیشہ بھی سود مند نہیں ہوا کرتا۔

٭٭٭٭٭٭
سڑک کے کنارے کھمبے پر چپکے کاغذ پر لکھا ہوا تھا
میرے پچاس روپے گم ہو گئے ہیں، جس کو ملیں وہ میرے گھر واقع فلاں گلی پہنچا دے، میں ایک بہت ہی غریب اور بوڑھی عورت ہوں، میرا کوئی کمانے والا نہیں، روٹی خریدنے کیلئے بھی محتاج رہتی ہوں۔
ایک آدمی کو یہ پچاس روپے ملے تو وہ کاغذ پر لکھے ہوئے پتے پر پہنچانے چلا گیا۔
جیب سے پچاس روپے نکال کر بُڑھیا کو دیئے تو وہ پیسے لیتے ہوئے رو پڑی۔
کہنے لگی: بیٹے آج تم بارہویں آدمی ہو جسے میرے پچاس روپے ملے ہیں اور وہ مجھے پہنچانے چلا آیا ہے۔
آدمی پیسے دیکر مسکراتے ہوئے جانے لگا تو بُڑھیا نے اُسے پیچھے سے آواز دیتے ہوئے کہا:
بیٹے، جاتے ہوئے وہ کاغذ جہاں لگا ہوا ہے اُسے پھاڑتے جانا
کیونکہ ناں تو میں پڑھی لکھی ہوں اور ناں ہی میں نے وہ کاغذ اُدھر چپکایا ہے۔
( وفي السماء رزقكم وما توعدون – آسمان ہی میں ہے تمہارا رزق بھی اور وہ چیز بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے)
٭٭٭٭٭٭
ٹیکسی والے کی نصیحت؛
ایک صاحب سناتے ہیں کہ: میں ٹیکسی میں ایئرپورٹ جانے کیلئے سوار ہوا، ٹیکسی ڈرائیور ماہر آدمی تھا اور اپنی لین میں سیدھا چل رہا تھا۔ اچانک ایک پارکنگ لاٹ سے بیک کرتی ہوئی گاڑی باہر نکلی، میرے ڈرائیور نے پوری قوت سے بریک لگا کر اور تھوڑا سا دوسری لین میں ڈال کر بمشکل ہی ٹیکسی کو حادثے سے بچایا۔ ٹیکسی انچوں کے فاصلے سے ٹکرانے سے بچی، دوسری لین میں پیچھے سے آتا ایک کار والا کھڑکی سے منہ باہر نکال کر ہمیں ماں بہن کی گالیاں دیتا ہوا نکل گیا۔  میرے ڈرائیور نے ناصرف مسکرانے پر اکتفا کیا بلکہ معذرت خواہانہ انداز میں اپنا ہاتھ ماتھے تک بھی لایا۔  میں بڑا حیران ہوا کہ ہم ایئرپورٹ کی بجائے ہسپتال جانے سے بال بال بچے ہیں، ہمارا کوئی قصور بھی نہیں تھا، اُلٹا گالیاں بھی ہم نے کھائی ہیں، میں نے ڈرائیور سے کہا تم عجیب آدمی ہو، گالیاں کھا کر ہنستے ہو، حالانکہ تم اس معاملے میں مظلوم تھے۔ ٹیکسی والے جس طرح سے مجھے جواب دیا، مجھے اس سے ایک اچھا سبق ملا، بعد میں، میں نے اس سبق کو
کوڑے والے ٹرک کی اصلیت کا نام دیا۔  ڈرائیور نے مجھے کہا تھا کہ؛ اس دنیا میں بہت سے لوگ گندگی اور کچرہ اُٹھانے والے کوڑے کے ٹرک کی طرح ہر دم غصے، جہالت، ناکامی اور مایوسی کے بوجھ کو اُٹھائے لدے پھندے گھومتے رہتے ہیں، جب اُن کے اندر اس گندگی کا ڈھیر اور اُسکا بوجھ بڑھ جاتا ہے تو اُن سے جہاں بن پڑے گرانے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ یہ آپ پر منحصر ہے کہ کس طرح ایسے لوگوں کو اپنے اوپر گند پھینکنے کا موقع نا دیں۔

٭٭٭٭٭٭
جب معاویہ بن ابی سفیان کو غصہ آیا تو تاریخ میں پہلی بار بحری جہاز لیکر روم پر چڑھائی کر دی۔
 جب معتصم باللہ کو غصہ آیا تو عموریہ شہر کو فتح کر کے بیزنطوں کیلئے عبرت بنا دیا
جب صلاح ایوبی کو غصہ آیا تو قسم کھائی جب تک فلسطین مسلمانوں کو واپس نہیں دلائے گا نہیں ہنسے گا
جب عبدالرحمٰن غافقی کو غصہ آیا تو مسلمانوں کے لشکر کو پیرس کے وسط تک پہنچا دیا
جب محمد فاتح کو غصہ آیا تو قسطنطنیہ کو فتح کرکے رومیوں کیلئے نشان عبرت بنا دیا
جب عراق، غزہ، چیچینیا اور افغانستان میں بیگناہ مسلمانوں کے قتل عام پر مسلم حکمرانوں کو غصہ آیا تو اقوام متحدہ کو خط لکھ کر مذمت کر دی
جب پاکستانی حکمرانوں کو پاکستان میں مظلوم، بے گناہ اور بے بیکس بچوں بوڑھوں پر ڈرون حملوں پر غصہ آیا تو اخبار میں مذمتی اشتہار چھپوا دیا۔
٭٭٭٭٭٭
دوستوں کا جمگھٹا کامیاب ہونے کی نشانی نہیں، نا ہی اکیلا ہونا ناکامی کی علامت۔ بھیڑ ریوڑ میں بھی بھیڑ، شیر اکیلا بھی شیر کہلاتا ہے۔
چھوٹی، انگوٹھی والی، درمیانی اور شہادت کی انگلی، یہ چاروں ہر وقت اکٹھی، انگوٹھا سب سے الگ اور تنہا، وہ اکٹھی رہ کر بھی کمزور، یہ اکیلا ہو کر بھی موثر۔
یقین نہیں آتا تو انگوٹھے کے بغیر چار انگلیوں سے ایک بٹن بند کر کے دکھا دیں یا ایک لفظ لکھ کر دکھا دیں۔
اکیلے رہیں تو معاشرے کیلئے مفید مل کر رہیں تو بھی لوگوں کیلئے منفعت بنیں

٭٭٭٭٭٭
ٹائیٹانک جہاز کو اپنے وقت کے ماہر ترین لوگوں نے بنایا تھا، کشتیِ نوح کو بنانے والے اس پیشے سے بھی واقف نا تھے
اول الذکر نے لوگوں کو ڈبو کر رکھ دیا، دوسرے والے نے بنی نوع انسانیت کو بچا لیا۔
تو پھر جان لیجیئے کہ؛ بات اللہ تعالیٰ کی طرف سے توفیق کی ہوتی ہے۔
ہمت، محنت اور کوشش کرنے میں کسر نا چھوڑیئے، اللہ تعالیٰ آپ کی لگن کا صدقہ آپ کو کامیابی سے نوازے گا


Thursday 14 March 2013

خلق کہتی ہے جسے دل


خلق کہتی ہے جسے دل ترے دیوانے کا
ایک گوشہ ہے یہ دنیا اسی ویرانے کا
 
اک معمّہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
 
زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا
 
حُسن ہے ذات مری، عشق صفَت ہے میری
 
ہوں تو میں شمع مگر بھیس ہے پروانے کا

کعبہ کو دل کی زیارت کے لیے جاتا ہوں
 
آستانہ ہے حرم میرے صنم خانے کا
مختصر قصّہٴ غم یہ ہے کہ دل رکھتا ہوں
 
 
رازِ کونین خلاصہ ہے اس افسانے کا

زندگی بھی تو پشیماں ہے یہاں لا کے مجھے
 
 
ڈھونڈتی ہے کوئی حیلہ مرے مر جانے کا
 
تم نے دیکھا ہے کبھی گھر کو بدلتے ہوئے رنگ
 
آؤ دیکھو نہ تماشا مرے غم خانے کا
 
 
اب اسے دار پہ لے جا کے سُلا دے ساقی
 
یوں بہکنا نہیں اچھّا ترے مستانے کا
 
دل سے پہنچی تو ہیں آنکھوں میں لہو کی بوندیں
 
 
سلسلہ شیشے سے ملنا تو ہے پیمانے کا
ہڈّیاں ہیں کئی لپٹی ہوئی زنجیروں میں
 
لیے جاتے ہیں جنازہ ترے دیوانے کا
 
وحدتِ حُسن کے جلووں کی یہ کثرت اے عشق
 
 
 
دل کے ہر ذرّے میں عالم ہے پری خانے کا

چشمِ ساقی اثرِ مے سے نہیں ہے گل رنگ
 
 
دل مرے خون سے لبریز ہے پیمانے کا
 
 
لوح دل کو، غمِ الفت کو قلم کہتے ہیں
 
 
کُن ہے اندازِ رقم حُسن کے افسانے کا
ہر نفَس عمرِ گزشتہ کی ہے میّت فانی
زندگی نام ہے مر مر کے جیے جانے کا


Wednesday 13 March 2013

Bila unwan


وارسا کا ویجنکی پارک جو اوپر تلے تین سطحوں پر بنایا گیا ہے میں فیڈرک شوپن کے مجسمے کے پیچھے سے نیچے اترتے 
ہوئے درختوں کی قطار میں میرا ساتواں نمبر ہے۔ میں کب سے یہاں ہوں ، کہاں لگایا گیا، کیسے یہاں آیا، وہ تو میں تب ہی بتا سکتا اگر ہم بھی انسانوں کی طرح ڈائری لکھا کرتے یا ہمارا بھی شہری انتظامیہ میں اندراج کرایا جاتا لیکن میری پہلی یاد اسی پارک کی ہے جب ایک سیاہ کوا میری ٹہنی پر بیٹھا کائیں کائیں کرتا کہہ رہا تھا کہ "بڑے درختوں کو کٹے اتنے دن ہو گئے کہ لگتا ہے کہ وہ یہاں تھے ہی نہیں" ۔ ایک بوڑھے کوے نے جس کو پتہ تھا وہ اس بار کی برف نہیں دیکھ پائے گا نے جواب دیا کہ "رہنا جھوٹ ہے اور جانا سچ ہے"۔ حالانکہ وہ میری پہلی یاد ہے لیکن میں اچھی طرح یاد ہے اس زمانے میں بڑے بوڑھوں کی باتوں ہر منہ کا ذائقہ خراب نہیں ہوا کرتا تھا کیونکہ تب دنیا کا نظام سائنس کی بجائے بڑوں کی باتوں پر چل رہا تھا۔


جب ہم سب نے ہوش سنبھالا تو کوئی بڑا درخت موجود نہ تھا جو ہم کو بتا پاتا کہ یہ جگہ پہلے کیا تھی اور ہم سے پہلے کون تھا اور ہم یہاں کیسے آئے۔ لیکن لوگ ہمارے ساتھ ٹھہر کر پرانے درختوں کو یاد کرتے تھے جو ان کے پُرکھوں نے لگائے تھے جب وہ آزاد تھے جبکہ ہم روسیوں کے لگائے ہوئے تھے جو انکے نزدیک غلامی کی نشانی تھی لیکن خوبیاں خامیاں تو سب میں ہوتی ہیں اور جانے والوں کی بد تعریفی کیا کرنی۔

 طرح طرح کے لوگ آئے رنگ رنگ کے پرندے چہچہائے اور ہم ان کی زبان ، عادات سمجھتے چلے گئے۔جو بھی آیا وہ سمجھتا کہ وہ پہلا ہے جو یہاں پر آیا ہے لیکن ہوش سنبھالنے کے بعد ہر پرندے کی بولی میں سمجھتا تھا ایسے ہی پرتگالی آئے، جاپانی آئے، عربی آئے، اسپینی آئے، انگریز آئے غرض جس نے جس زبان میں آ کر کہا کہ وہ اپنی قوم کا پہلا فرد ہے جو یہاں آیا ہے توتب بھی میں اسکی زبان سمجھتا تھا۔

 انسانوں کے ساتھ اتنا لمبا عرصہ گزار کر بھی اپنی شناخت برقرار رکھی حالانکہ انسان تو وحشی درندوں کو بھی انسان بنانے پر مختار ہے۔ ہوسکتا ہے ہمارے انسان نہ بننے کی وجہ یہ رہی ہو کہ انسان کی حرکت ہر ظاہری و باطنی سمت میں ہوتی ہے جبکہ ہماری فقط افقی ہوتی ہے۔ انسان خود اپنے جھکنے کے اسباب بناتا ہے جبکہ ہمیں دوسرے اسباب جھکا دیتے ہیں۔ انسان جیتا ہے تو اس کوشش میں لگا رہتا ہے کہ اپنی اہمیت اور اپنا مقام بڑھاتا رہے اور مرتا ہے تو پیچھے رہ جانے والے اس اہمیت اور مقام کے خلا کو پر کرنے میں لگے رہتے ہیں- جبکہ ہم زندگی بھر دوسروں کی اہمیت اور مقام بڑھانے میں لگے رہتے ہیں اور مر کر بھی لوگوں کی اہمیت اور مقام بڑھانے کے سامان کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔

ایک برازیلی پروفیسر اپنے طلبا کو پرتگالی میں سمجھا رہا تھا کہ" کچھ سیکھنا ہے تو سراپا کان بن جاؤ"۔ اگر میرے رب نے مجھے زبان دی ہوتی تو میں بول اٹھتا کہ" بالکل سچ کہا"۔ سچ صرف پیغمبروں پر نازل نہیں ہوتا بلکہ ہر لمحے کا اپنا سچ ہوتا ہے جو کسی پر بھی نازل ہو سکتا ہے اور اسکی تائید کرنا ہی حق ہے۔ پروفیسر سمجھانے لگا  "کامیابی وہ دیوی ہے جسکی بھینٹ ہر شے چڑھانی پڑتی ہے۔ پیسہ ، وقت، جان، دل، اپنے ، پرائے اور پھر بھی کوئی پتہ نہیں یہ مہربان ہو کہ نہ ہو۔ کچھ لوگ تمام عمر لٹا کر بھی اس کی خوشنودی حاصل نہیں کر پاتے جبکہ کچھ لوگوں کے کھوٹے سکوں پر بھی یہ مہربان ہوجاتی ہے۔کچھ درخت نایاب ہو کر بھی اہمیت نہیں رکھتے جب کہ کچھ گھر گھر ہونے باوجود بھی متبرک قرار پاتے ہیں۔کچھ لوگ مر کر بھی کچھ نہیں پاتے اور گمنام سپاہی کی قبر پر ایک مٹھی مٹی انکی بھی ہوتی ہے جبکہ کچھ غلط ہندوستان تلاش کرنے پر بھی امریکہ کے دریافت کنندہ بن جاتے ہیں"۔ لیکن سمجھ صرف ان کے لیے ہے جو سمجھنا چاہیں۔

  سب سے خوش قسمت انسان حضرت آدم ؑ تھے جو پہلے انسان تھے اور جن کے کندھوں پر اپنے سے پہلوں کے گناہ ثواب کا کوئی بوجھ نہیں تھا۔ بعد میں آنے والے انسان اپنےسے پچھلی نسلوں کا بوجھ تمام عمر اپنے کندھوں پر ڈھوتے رہے ۔ جنہوں نے بظاہر اسکو اتار پھینکا نادانستگی میں وہ بھی اپنے خون میں ، اپنی عادات میں، اپنی اولاد میں، اپنے آس پاس اسے پالتے رہے ۔جبکہ ہر درخت تنہا پیدا ہوتا اور ایسے ہی ختم ہو جاتا ہے۔

انسان دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جو زندگی سے بھرپور ہوتے ہیں، جو جی بھر کر جذبات کا اظہار کرتے ہیں جو بات بے بات قہقہہ لگاتے ہیں ، جو بات بے بات غصہ ہوجاتے ہیں، جو جلدی خفا ہوجاتے ہیں اور فوراً مان جاتے ہیں؛ دوسرے وہ ہوتے ہیں جو ان سب چیزوں سے بے نیاز ہوجاتے ہیں۔نہ کسی چیز سے انکو تکلیف پہنچتی ہے نہ کچھ انکو خوش کرنے کا سبب بنتا ہے۔ باقی جو ہیں وہ یا راستے میں ہیں یا راستہ بھولے ہوئے ہیں۔ موخر ذکرلوگ درحقیقت جیتے جی موت قبول کر چکے ہوتے ہیں ۔ زندگی سے بھرپور لوگ تمام عمر ایسے ہی لوگوں کے پیچھے بھاگتے ہیں اور ان سا رویہ اختیار کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ کچھ لوگ پہلی ہی کوشش میں اس مقام کو پا لیتے ہیں جبکہ کچھ لوگ مر کر بھی سکون کے طلبگار رہتے ہیں اور بھٹکتے رہتے ہیں۔ جبکہ جامدات پیدائش سے ہی سکون میں ہوتے ہیں اور ہر موسم ہر خوشی ہر افسوس چپ چاپ سہتے ہیں۔ انسان جامدات سا سکون حاصل کرنے کو حرکت میں رہتا ہے۔

 ہماری قسمت میں جو لکھا گیا ہم نے اس سے انحراف نہیں کیا ۔ اونچائی کی طرف بڑھتے رہنا ہی مقصد قرار پایا اور ہم چپہ چپہ انچ انچ اوپر اٹھتے چلے گئے لیکن انسان کو جو مقصد دیا گیا اس نے اس سے انحراف کیا۔ بغاوت انسان کی سرشست میں ہے اور اطاعت ہماری عادت قرار پائی۔ انسان کو جو نیکی عطا کی گئی اس کے بدلے اس نے برائی ایجاد کی اور جس برائی کی اس کو اجازت دی گئی اس کی روک تھام کے لیے اس نے نیکی پیدا کر ڈالی۔

 انسان کی فطرت میں ٹہراؤ نہیں ہے شاید اسے لیے جمادات کو پیدا کیا گیا۔ پچھلے برس جو روسی اپنی محبوبہ کے گلے میں بانہیں ڈال کر اس کو ٹالسٹائی کے جملے بولا کرتا تھا اگلے سال وہ میرے تنے سے لپٹ کر اس محبوبہ کی یاد میں جو اس کو چھوڑ کر ایک پولش کے ساتھ چلی گئی تھی دھاڑیں مار کر روتا تھا۔اس سے اگلے سال وہی روسی ایک جرمن دو شیزہ کا ہاتھ تھامے اس کو ٹوٹی پھوٹی جرمن سنا کر ہنساتا تھا اور اسکی ہر ہنسی میں اس کی زندگی کے ایک سال کا اضافہ ہوتا جاتا تھا۔

درخت خد مت خلق کے واسطے پیدا کیے گئے کہ چھاؤں دیتے ہیں ، پھول دیتے ہیں ، پھل دیتے ہیں، لکڑی دیتے ہیں لیکن اشرف المخلوق انسان ہی ہے۔ وہ آگے بڑھ کر خدمت خلق کر سکتا ہے۔ جس نے پھل کھانا ہو وہ خود چل کر درخت کے پاس آتا ہے جبکہ انسان وہ کنواں بننے کی طاقت رکھتا ہے جو خود پیاسے کے پاس جا کر اس کی پیاس بجھا سکے۔

میں نے اردگرد دیکھا ۔ میرے سمیت تمام درخت پتے چھاڑ چکے تھے۔ میں سوچنے لگا تابع فرمانی آسان نہیں ہےجس کو موقع ملے گا وہ فرار اختیار کرے گا۔ انسان چاہے تو بغیر پروں کے ہی پرندوں سے اونچی اڑانیں بھر سکتا ہے اور چاہے تو جمادات سے زیادہ ثابت قدمی اختیار کر سکتا ہے۔ ایک ایک کر کے مجھے وہ لوگ یاد آنے لگے جنہوں نے میرے نیچے ٹھہر کر اپنے ہم رازوں کو اپنی زندگی کی کہانیاں سنائیں تھیں۔ مجھے وہ برطانوی یاد آیا جو نا بالغ بچوں اور بچیوں سے زیادتی کیا کرتا تھا، مجھے وہ ہندوستانی سادھو یاد آیا جو مراقبے میں زمین سے تین فٹ اونچا اٹھ جایا کرتا تھا، مجھے وہ عرب حکمران یاد آیا جسکے خود کے پاس تو سونے کی کار تھی مگر اس کے ملک کی عوام بھوکی مر رہی تھی، مجھےجنوبی امریکہ کا وہ درویش صدر یاد آیا جس نے اپنا گھر بھی بیچ کر عوام کو دے دیا تھا، مجھے وہ پادری یاد آیا جس کی ہوس سے کوئی محفوظ نہ تھا، مجھے وہ نن یاد آئی جس نے پرائے ملک جا کر تمام عمر بیماروں کی خدمت کرتے گزار دی، مجھے وہ افریقی یاد آیا جو شیطان پرست قبیلے کا سربراہ تھا، مجھے وہ چند تنکوں داڑھی والا مشرقی ایشیائی یاد آیا جس کی زبان سے کوئی لفظ خدا کی عظمت بیان کیے بغیر نہ نکلتا تھا، مجھے پولش والدین کا وہ یہودی لڑکا یاد آیا جو اسرائیل میں رہتا تھا اور دیوار گریہ چھوڑ کر ہر سال مجھے گلے لگا کر رونے آتا تھا ، مجھے وہ پولش یاد آیا جو روسیوں کی حکمرانی کا غصہ اس تمام پارک کو اور اس کے درختوں کو آگ لگا کر نکالنا چاہتا تھا، مجھے وہ جرمن یاد آیا جو تین انسانی جانیں بچانے کی خاطر جلتی عمارت میں گھس گیا تھا، مجھے وہ ازبک یاد آیا جس نے خود کش دھماکہ کر بیس جانیں لے لی تھٰں۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ مجھے درخت رکھا، انسان جسکا ہر نیا روز ایک نئی زندگی ہے اور ہر نئی زندگی امتحانوں سے بھرپور ہے گزارنا آسان کام نہیں۔ میں نے آسمان کی طرف تکا ،برف باری آج کل میں ہوا چاہتی تھی۔ ہوا میں ٹھنڈک چیرتی سی گزرتی تھی۔ میں دوسرے درختوں کی طرح ٹنڈ منڈ ٹہنیاں پھیلائے پانچ مہینے کے ٹھنڈے عذاب کو سہنے کو تیار ہوگیا۔ہر سال پانچ مہینے کی سزا تمام عمر انسان بننے سے کہیں آسان ہے۔

Thursday 7 March 2013

میرا وطن

یہاں کھانا  نہیں  ہے اس لئے پیار  سے پیٹ بھر لیتے ہیں نل میں  پانی نہیں اتا اس لئے سیٹیی کی آواز  سے ہی کام چلاتے ہیں 
مکان تنگ ہیں اس لئے  دل کھلے ہونے کا دعوا کرتے ہیں  
یہاں ماسٹر ڈگری والے کو نائب قصد کی نوکری ملتی ہے 
اور اخبار صرف روٹیاں لپیٹنے کے کام اتا ہے 
یہاں کا  ٹیلنٹ سارا بیرون ملک چلا جاتا ہے  جو نہ جا سکے اسے قدردان اٹھا کر لے جاتے ہیں 
جو گھر سے نکلتا ہے واپسی کی امید نہیں رکھتا 
حفاظت صرف بڑے لوگوں کی   ہوتی ہے 

غریبوں کے بچے ٹریفک میں پھنسے رکشوں میں پیدا ہوتے ہیں 
   

ہمارا پاسپورٹ دیکھتے ہی ہر ملک کے حکام کو دہشت گرد نظر آتے ہیں
ہاں یہ سب ہے مرے ملک میں یہ ہی سب کچھ ہے 
الله خیر کرے گا یار 
ہاں وہی کرے گا ہم کو کیا ضرورت ہے  کچھ کرنے کی
اس کا ملک ہے تو کیوں کفر کرنے چلا ہے 
ہاں کل کھانا میرے سامنے تھا مگر الله  نے مرے منہ میں نہیں ڈالا 
 خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی 
نہ ہو خیال جس کو آپ اپنی حالت بدلنے کا 
پڑے  رہو سری زندگی سجدے  میں  کچھ نہیں ہونے والا 
اسی نے کہا ہے جب اذان ہو تو کام چھوڑ کر آؤ مگر پھر زمین پر پھیل جاؤ اور تلاش کرو 
بیٹھے بیٹھاے  تو کسی کو نہ ملا تھا اور نہ شکوہ کرنے سے 
أو آج اس رب سے مانگیں اور پھر جان لڑا دیں جیسا بھی ہے یہی ہمارا ملک ہے ہم نہ ٹھیک کریں گے تو کون کرے گا

Wednesday 6 March 2013

محسن نقوی

کوئی نئی چوٹ پِھر سے کھاؤ! اداس لوگو
کہا تھا کِس نے، کہ مسکراؤ! اُداس لوگو

گُزر رہی ہیں گلی سے، پھر ماتمی ہوائیں
کِواڑ کھولو ، دئیے بُجھاؤ! اُداس لوگو

جو رات مقتل میں بال کھولے اُتر رہی تھی
وہ رات کیسی رہی ، سناؤ! اُداس لوگو

کہاں تلک، بام و در چراغاں کیے رکھو گے
بِچھڑنے والوں کو، بھول جاؤ! اُداس لوگو

اُجاڑ جنگل ، ڈری فضا، ہانپتی ہوائیں
یہیں کہیں بستیاں بساؤ! اُداس لوگو

یہ کِس نے سہمی ہوئی فضا میں ہمیں پکارا
یہ کِس نے آواز دی، کہ آؤ! اُداس لوگو

یہ جاں گنوانے کی رُت یونہی رائیگاں نہ جائے
سرِ سناں، کوئی سر سجاؤ! اُداس لوگو

اُسی کی باتوں سے ہی طبیعت سنبھل سکے گی
کہیں سے محسن کو ڈھونڈ لاؤ! اُداس لوگو

Tuesday 5 March 2013

لڑکیاں



ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﻟﮍﺍﺋﯽ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﺎ ﺍﺗﻔﺎﻕ ﮨﻮﺍ ۔۔۔ ﺩﻭ ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﮯ ﺑﺎﻝ ﮐﮭﯿﻨﭻ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﻟﮍﺍﺋﯽ ﮐﮯ ﺍﺧﺘﺘﺎﻡ ﭘﺮ ﻓﺎﺗﺢ ﺍﻭﺭ ﻣﻔﺘﻮﺡ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮦ ﮨﭽﮑﯿﺎﮞ ﻟﮯ ﮐﮯ ﺯﺍﺭ ﻭ ﻗﻄﺎﺭ ﺭﻭ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ ﮔﺎﮌﯼ ﭼﻼﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﻣﺤﺘﺎﻁ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮔﺎﮌﯼ ﺳﮍﮎ ﭘﺮ ﻻﺗﮯ ﮨﯽ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮔﺎﮌﯾﻮﮞ ﻭﺍﻟﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﻣﺤﺘﺎﻁ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺻﺮﻑ ﮔﺎﮌﯼ ﭼﻼﻧﺎ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﮔﺎﮌﯼ ﮐﯿﺴﮯ ﭼﻠﺘﯽ ﮨﮯ؟ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻓﺮﺷﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺍﮔﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻟﮍﮐﯽ ﻏﻠﻄﯽ ﺳﮯ ﺍﻧﺠﻦ ﮐﺎ ﮨُﮉ ﮐﮭﻮﻝ ﮐﺮ ﺍﻧﺪﺭ ﺟﮭﺎﻧﮏ ﻟﮯ ﺗﻮ ﻓﻮﺭﺍً ﻏﺶ ﮐﮭﺎ ﮐﺮ ﮔﺮ ﭘﮍﮮ۔ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﮐﺎﺭﺑﻮﺭﯾﮍ ﺍﻭﺭ ﺭﯾﮉﯼ ﺍﯾﭩﺮ ﻣﯿﮟ ﺻﺮﻑ ﺳﭙﯿﻠﻨﮓ ﮐﺎ ﻓﺮﻕ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﻗﺎﺭﺋﯿﻦ ! ﮐﯿﺎ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮ ﮔﺎﮌﯼ ﮐﺎ ﭨﺎﺋﺮ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮐﺮﺗﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﮯ ۔۔۔۔؟ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ! ﮐﺒﮭﯽ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﮔﮯ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ !
ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺣﺲِ ﻣﺰﺍﺡ ﮐﺎ ﺧﺎﺻﺎ ﻓﻘﺪﺍﻥ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﻟﮍﮐﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﻨﺎﻧﻮﯾﮟ ﻓﯿﺼﺪ ﻟﻄﯿﻔﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺟُﻮﮌﮮ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺍﭘﻨﺎ ﺍﯾﮏ ﻣﺰﺍﺡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﮐﭽﮫ ﺍﯾﺴﺎ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ﺛﻤﯿﻨﮧ ! ﺍﻟﻠﮧ ﮦ ﮦ ﮦ ﮦ ﮦ ﮦ ! ﻣﯿﮟ ﺗﺎﯾﺎ ﺟﺎﻥ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮔﺌﯽ ) ﺍﺏ ﭘﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﺛﻤﯿﻨﮧ ﺳﮯ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﮨﯿﮟ ﯾﺎ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ( ﺟﻮﻧﮩﯽ ﺍﻧﺪﺭ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺋﯽ، ﺍﯾﮏ ﺍﺗﻨﺎ ﺑﮍﺍ ﮐﺘﺎ ﺁﮔﮯ ﮐﮭﮍﺍ ﺗﮭﺎ، ﻣﯿﺮﯼ ﺗﻮ ﺟﺎﻥ ﮨﯽ ﻧﮑﻞ ﮔﺌﯽ ۔۔۔ ﮨﺎﮨﺎﮨﺎ ۔۔۔ ﮨﺎﮨﺎﮨﺎ ۔۔۔ ! ﻗﺎﺭﺋﯿﻦ ! ﺍﻟﻠﮧ ﮐﻮ ﺣﺎﺿﺮ ﻧﺎﻇﺮ ﺟﺎﻥ ﮐﺮ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮨﻨﺴﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ؟
ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﻣﺸﻐﻠﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺩﻟﮩﻦ ﮈﮬﻮﻧﮉﻧﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﻣﺤﺾ ” ﻟﮍﮐﮯ ﮐﯽ ﺑﮩﻦ ﮨﯿﮟ ” ﺳﻨﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺗﯿﺲ ﭼﺎﻟﯿﺲ ﮔﮭﺮ ﯾﻮﻧﮩﯽ ﭘﮭﺮ ﭘﮭﺮﺍ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﺭﺷﺘﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﯽ ” ﭨﻮﺭ ” ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﻣﮕﺮ ﺟﺐ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﻟﮍﮐﯽ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺍﭘﻨﺎ ﺭﺷﺘﮧ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﺁ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﻮ ﭼﮭﭙﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺟﮕﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﯽ ۔۔۔۔ !
ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻏﻠﻂ ﭘﺮﻭﭘﯿﮕﻨﮉﺍ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺑﻮﻟﺘﯽ ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ ! ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﺘﻔﻖ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮞ۔ ﺍﯾﮏ ﻟﮍﮐﯽ ﺗﻮ ﻣﺤﺾ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﮐﻮ ﭼﭗ ﮐﺮﻭﺍﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮔﮭﻨﭩﮧ ﮈﯾﮍﮪ ﮔﮭﻨﭩﮧ ﺑﻮﻝ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﮯ۔۔۔ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﭘﮩﻠﯽ ﮐﻮ ﭼُﭗ ﮐﺮﻭﺍﻧﮯ ﮐﮯ ﻭﺍﺳﻄﮯ ﻣﺰﯾﺪ ﮔﮭﻨﭩﮧ ﺩﻭ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﺑﻮﻝ ﻟﮯ ﺗﻮ ﺁﺧﺮ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺑُﺮﺍﺋﯽ ﮨﮯ، ﺑﮭﻼ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ؟ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺍﻥ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﭼﭗ ﮨﻮ ﮔﺌﯿﮟ ﺗﻮ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﻮﻗﻊ ﻣِﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔۔۔۔ ﺍﻭﺭ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﮯ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻋﻘﻞ ﺩﺭﮐﺎﺭ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔۔۔ !
ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ ﺑﮩﺖ ﺟﻠﺪ ﺭﻭ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﯾﮧ ﺭﻭﻧﺎ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺩُﮐﮭﯽ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﻋﻼﻣﺖ ﻧﮩﯿﮟ، ﺩﺭﺍﺻﻞ ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮑﺴﺮﺳﺎﺋﺰ ﮨﮯ۔ ﺳﺎﺭﮮ ﺩﮐﮫ ﺁﻧﺴﻮﺅﮞ ﮐﮯ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﻧﮑﺎﻝ ﺑﺎﮨﺮ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔۔۔۔ ﭘﻠﮏ ﺟﮭﭙﮑﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺩِﻝ ﮐﺎ ﺑﻮﺟﮫ ﮨﻠﮑﺎ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺑﮭﻠﯽ ﭼﻨﮕﯽ۔۔۔ ! ﺟﯿﺴﮯ ﮐُﭽﮫ ﮨُﻮﺍ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ۔۔۔ ﺟﺒﮑﮧ ﻟﮍﮐﮯ ﺑﯿﭽﺎﺭﮮ ﻏﻢ ﺳﯿﻨﮯ ﺳﮯ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﺑﺮﺳﻮﮞ ﺳﻠﮕﺘﮯ ﺭﮨﺘﮯ

Sunday 3 March 2013

Hal e dil


ہجر کرتے یا کوئی وصل گوارا کرتے
ہم بہرحال بسر خواب تمھارا کرتے
ایک ایسی بھی گھڑی عشق میں آئی تھی کہ ہم
خاک کو ہاتھ لگاتے تو ستارہ کرتے
اب تو مل جاؤ ہمیں تم کہ تمھاری خاطر
اتنی دُور آگئے دُنیا سے کنارہ کرتے
محوِ آرائشِ رُخ ہے وہ قیامت سرِ بام
آنکھ اگر آئینہ ہوتی تو نظارہ کرتے
ایک چہرے میں تو ممکن نہیں اتنے چہرے
کس سے کرتے جو کوئی عشق دوبارہ کرتے
جب ہے یہ خانۂ دل آپ کی خلوت کے لئے
پھر کوئی آئے یہاں کیسے گوارا کرتے
کون رکھتا ہے اندھیرے میں دیا، آنکھ میں خواب
تیری جانب ہی ترے لوگ اشارہ کرتے
ظرفِ آئینہ کہاں اور ترا حُسن کہاں
ہم ترے چہرے سے آئینہ سنوارا کرتے

Saturday 2 March 2013

ایک خوبصورت غزل


ہزار بار دبانے کو شہر یار اُٹھا
مگر یہ شور ِغریباں کہ بار بار اُٹھا

یہ ٹوٹ کر تو زیادہ وبال ِ دوش ھوئی
میں اٹھ پڑا تو نہ مجھ سے انا کا بار اُٹھا
...

یقین رکھنے لگا ھے جو عالم ِ دل پر
تو پھر علائق ِ دنیا سے اعتبار اُٹھا

عدو سے اگلی لڑائی کا دن تو طے کر لیں
چلے بھی جائیں گے شانوں پہ اپنی ھار اُٹھا

زمین ِحُسن بھی شق تھی سپہر ِعشق بھی شق
یہاں کسی سے نہ میری نظر کا بار اُٹھا

یہ بزمِ خاک نشیناں ھے سوچ کر بیٹھو
یہاں سے کوئی اُٹھا تو برائے دار اُٹھا

زمیں سہار نہ پائی مری شکست کا بوجھ
کہ جتنی بار گرا ھوں میں اُتنی بار اُٹھا

میں حُکم ِ ضبط کو نافذ نہ کر سکا دل پر
جہاں بھی ظُلم کو دیکھا ، وہیں پُکار اُٹھا

ملا کے خاک میں مجھ کو وہ جب چلا نیر
تو اُس کے پاؤں پکڑنے مرا غُبار اُٹھا

Friday 1 March 2013

Dastan Arab: اے شخص تیری جستجو میں ،میں بیزار نہیں ہوں تھک گیا ...

Dastan Arab: اے شخص تیری جستجو میں ،میں بیزار نہیں ہوں تھک گیا ...: اے شخص تیری جستجو میں ،میں بیزار نہیں ہوں تھک گیا ہوں
اے شخص تیری جستجو میں
،میں بیزار نہیں ہوں تھک گیا ہوں
تمنا ترے جسم کی ہوتی تو جہاں سے چھین لیتے تجھے
میرا عشق تیری روح سے ہے اس لیے  خدا سے مانگتے ہیں تجھے