Sunday 26 May 2013

گدھا

گدھا اچھا بھلا عزت دار جانور تھا سامان ڈھوتا تھا، سواری کے کام آتا تھا، جنگوں تک میں حصہ لیا کرتا تھا کہ پنجابی زبان ایجاد ہو گئی اور گدھا "کھوتا" قرار پایا۔بات یہاں تک رہتی تو ٹھیک تھا لیکن سرائیکی نے تو حد ہی کردی۔کھوتے کو "گڈھیں" بنا دیا۔کبھی کسی سرائیکی بولنے والے سے گڈھیں سن کر دیکھیں، بندہ پانی پانی ہوجاتا ہے۔ گڈھیں سن کر گدھا بھی کہتا ہوگا اس ذلت سے تو اچھا تھا میں انسان ہو گیا ہوتا خواہ پاکستان میں ہی کیوں نہ پیدا ہوتا۔

جیسے ہم نےگوروں کے پروفیسر الو کو کالے جادو اور الو کا پٹھہ بلانے کے لیے مخصوص کر رکھا ہے ایسے ہی گدھا ہم نے دوسروں کی بے عزتی کرنے واسطے رکھ چھوڑا ہے۔ہاں کبھی کبھار کوئی گدھےکا مالک اس پر ڈنڈے برسانے کا کام بھی لے لیتا ہے۔

یورپ میں جتنی چار ٹانگوں والے گدھوں کی عزت ہے اتنی ہی دوٹانگوں والے گدھوں کی بھی خاص مانگ ہے اور گوریاں تو ان کو دیکھتے ہی دل دے بیٹھتی ہیں۔ گوروں کو گدھوں سے کتنی انسیت ہے اس کی سب سے بڑی مثال امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کا انتخابی نشان ہے۔ اب سوچیں ہمارے ہاں کسی پارٹی کا انتخابی نشان شیر یا تیر کی بجائے گدھا ہو جائے تو کیا ہو؟ اسکی ایک اور مثال وہ تمام حکمران ہیں جن کو امریکی بھاگ بھاگ کر اپنی گودوں میں بٹھاتے ہیں۔گوریاں بھی گدھوں کی محبت میں پیچھے نہیں ہیں بلکہ شادی کے لیے ان کو صرف اور صرف گدھے ہی چاہئیں۔ہماری طرف لڑکیوں کا زور نہیں چلتا لیکن چاہتی وہ بھی ایسا دلہا ہیں جو ایک بوجھ ڈھونے والا گدھا ہو اور ان سے پارٹ ٹائم کے طور پر شادی کرسکے۔ ہمارے ہاں ابھی بھی اکثر رشتے والدین تلاش کرتے ہیں لہٰذا ان کا در پردہ مقصدِ تلاش اپنی بیٹیوں کے لیے دو ٹانگوں والا گدھا ہوتا ہے اور ان کی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف بیوی کا گدھا ہو بلکہ پارٹ ٹائم میں سسرال والوں کو بھی خدمات پیش کر سکے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ ہمارے یہاں اکثر گدھے شادی کے بعد خود ساختہ مردانگی کی اَنا کے غبارے میں ہوا بھر کر دولتیاں جھاڑنے لگتے ہیں۔ لیکن کچھ کچھ قسمت والیوں کو ایسے گدھے بھی ملتے ہیں جو چار ٹانگوں والے گدھے سے بدرجہا بہتر ہوتے ہیں۔

 یوں تو شادی کے بعد ہر لڑکا سمجھتا ہے کہ اس کو گدھا بنایا گیا ہے جب کہ گدھا تو وہ پہلے ہی ہوتا ہے، فرق یہ ہے کہ پہلے وہ اپنی مرضی سےگدھا بنتا ہے پھر اس کو مجبوراً بننا پڑتا ہے۔ ہر مرد زندگی میں دو بار گدھا بنتا ہے۔ ایک بار جب اسے کسی سے محبت ہوتی ہے اور دوسری بار جب وہ کسی سے شادی کرتا ہے۔ لیکن اسے احساس بعد میں ہوتا ہے اور کچھ کو تو احساس بھی نہیں ہوتا اور وہ ہنسی خوشی ایک ہی جنم میں آواگان نظریہ بنے انسان اور گدھے کا کردار اکٹھے ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ ویسے آج کل ہمارے پردیسی بھائی بھی اپنے آپ کو گدھا سمجھے جانے کی شکایت کرتے نظر آ رہے ہیں، لیکن ہماری نظر میں ان سے زیادہ وہ گدھے ہیں جو پردیسی بننے کے امیدوار ہیں۔ لیکن یہاں بات گوروں اور گدھوں کے تعلق کی ہے تو ہم یہ بات کسی اور وقت کے لیے ادھار رکھ چھوڑتے ہیں۔

 اشتوت گارٹ (جرمنی)کے چڑیا گھر میں چمکتے بھورے رنگ اور درمیانی قامت کا جانور دیکھ کر ٹھٹک گیا۔ سوچنے کے باوجود جب سمجھ نہ آیا کہ یہ کون سا جانور ہے تو نزدیک جا کر جنگلے پر لگا نام پڑھا، پتا لگا کہ موصوف گدھے ہیں۔ ہمیں اس کی قسمت اور عیاشیوں پر رشک آیا اور تمام پاکستانیوں سے جو ڈونکی لگا کر یورپ میں آنے کے خواہشمند ہیں یا" اِن پراسس" ہیں سے تمام گلہ مٹ گیا کہ جہاں عزت ہے وہیں جا کر رہنا ہی پسند کریں گے ناں۔ اس سے قبل وہ ہمیں پہچان کر ہمارا تمسخر اڑا پاتا ہم رش کا فائدہ اٹھا کر پچھلے قدموں ہی وہاں سے رفو چکر ہو گئے۔ ہم گاؤں میں رہتے ہیں اور ہمیں گدھوں پر بیتنے والی تمام وارداتوں کا بخوبی علم ہے لہٰذا ہم نے وہاں سے فرار میں ہی نجات سمجھی کہ کسی اور کو پتہ لگ گیا تو گدھے والے جنگلے کی بجائے لوگوں نے ہمیں دیکھ کر کہنا تھا ’’ہونہہ.... گدھا کہیں کا۔‘‘

 پھر وارسا (پولینڈ)کے چڑیا گھر میں گوریوں کو گدھے کی گردن میں بانہیں ڈال کر فوٹو کھینچواتے یقین آگیا کہ مشرقی یورپ کی گوریاں چار ٹانگوں والے بھورے گدھوں پر جان چھڑکتی ہیں، دوٹانگوں والے کی تو بات ہی کیا ہے۔ ویسے پولینڈ میں ہمیں گوریاں جن نظروں سے دیکھتی تھیں ان سے ہمیں بھی گمان گزرتا تھا شاید وہ ہم کو بھی گدھا سمجھتی ہیں اور گدھا بھی وہ جس کی قربانی جائز ہو۔

اب کیا کیا جائے کہ یورپیوں کو گدھے اتنی وافر مقدار میں میسر نہیں جتنی ہم پر خدا کی رحمت ہے۔ جیسے گرم علاقوں والے برف باری کے شوقین ہوتے ہیں اور برف کے رہنے والے سورج کی ایک جھلک کو جان دیتے ہیں لہٰذا گدھوں کی کمی نے گوروں کو گدھوں کی محبت میں مبتلا کر ڈالا ہے۔ وہ چاہے دو ٹانگوں والا گدھا ہو یا چار ٹانگوں والا گدھا تو گدھا ہوتا ہے۔ گورے کسی کو غصے میں کیا، مذاق میں گدھا نہیں کہتے کہ ان پر گدھے کی اہمیت مسلم ہے۔ امریکہ میں لڑکیاں پیپر میرج paper marriage کرلیتی ہیں لیکن یورپ میں (برطانیہ کو نکال کر) پیپر میرج کا کوئی وجود نہیں کہ گدھا خود چل کر آپ کے پاس آئے اور آپ صرف کاغذات میں اس کے مالک بنیں؟ ہمارے سامنے ہمارے کئی ہم وطن اور ہمارے وطن مالوف کے ہمسائے میں رہنے والے یہاں گوریوں سے شادیوں کے بندھن میں بندھ چکے ہیں۔

بھائیو! ہم سب وہ گدھے ہیں جن کو صرف چارے سے مطلب ہے۔ خواہ کوئی بھی حاکم ہو اور ہم پر کچھ بھی لاد دے، ہمارااحتجاج ڈھینچوں ڈھینچوں تک ہی محدود ہے اور وہ بھی تب تک جب تک ہم کو چارے کی جھلک نہ نظر آ جائے۔ چارہ نظر آیا نہیں اور اصول کی ڈھینچوں ڈھینچوں ہم نے بند کی نہیں۔ اب گوریوں اور گوروں کو گدھے پسند ہیں تو وہ ہمیں کیوں پسند نہ کریں۔

Sunday 19 May 2013

پہلی صف



اکبر خان جتوئی جدی پشتی زمیندار تھا اور اس کی حویلی کی تعمیر ایک بیگھے رقبے پر اس کے دادے نے بڑی باڑھ کے بعد دوبارہ کی تھی۔ اس حویلی کے ساتھ ہی اس کے کئی باڑے اور ایک ڈیرہ جس پر ہر وقت اس کے مزارعوں اور باڑے کے ماجھیوں کا تانتا لگا رہتا تھا۔ اللہ کا دیا سب کچھ تھا۔تین بیویاں ، دو جوان جہاں بیٹے جو زیادہ تر شہر میں رہتے، کئی گھیر زمین کی جاگیر اور اس میں کئی ایکڑ آموں کے باغ اور سال میں ایک اناج اور دوسری صاف منافعے کی فصل بوئی جاتی تھی۔ سب کچھ تھا مگر اس کے باوجود  اکبر خان کی بس دو کمزوریاں تھیں۔ ایک تو ضرورت سے زیادہ زمین ہونے کے باوجود وہ مزید سمیٹنے سے خود کو باز  نہیں رکھ سکتا تھا اور دوسرا حویلی کی زنان خانے میں تین بیویوں کے باوجود بھی وہ ڈیرے پر عورتیں لائے بغیر گزارہ نہیں کر سکتا تھا۔ ہر سال وہ کچھ نہ کچھ زمین یا تو کسی مجبور سے خرید لیتا نہیں تو ہتھیانے تک کے لیے اس کے کاردار موجود تھے جن میں اکثر چھٹے ہوئے مفرور تھے۔ دوسری ہوس کے لیے  اکثر تو ناچنے والی کنجریاں بلا لاتا ورنہ مزارعوں کی عورتیں تو کھونٹی پر بندھی گائیوں کی طرح ہر وقت ہی اس کی خدمت واسطے موجود تھیں، یہاں بھی جو مرضی سے آ جاتی تو ستے خیراں نہیں تو کاردار خان کی پگڑی لے کر جاتے اور رات کے نکاح میں باندھ کر لے آتے۔
جو بھی تھا، ان دو قباحتوں کے علاوہ اکبر خان بھلا آدمی تھا۔ پانچ وقتی جماعت کا نمازی اور  مسجد کا خادم۔ سارا خرچہ خود تن تنہا اٹھاتا، مولوی کا ماہانہ وظیفہ یاد سے اس کی کوٹھڑی میں بھجوا دیتا اور مسجد میں خدا کے مسافروں کے لیےدو وقت کھانا بھی اکبر خان کی حویلی سے ہی پک کر بلاناغہ آیا کرتا تھا۔ پھر عرس کے عرس، زیارت پر کئی ہزار روپوں مالیت کا گھی مکھن اور نذرانہ علیحدہ سے پہنچاتا  کہ اس کی فصل، حویلی اور ڈیرے میں مرشدوں کی برکت اور خدا کا سایہ قائم رہے۔  مسجد میں بس اسے ایک خبط تھا کہ ہمیشہ پہلی صف میں عین ملا کے پیچھے نماز  پڑھتا اور مجال ہے کہ اس کی جگہ پر کوئی اورنمازی قدم رکھنے کی بھی جرات کر سکتا ہو۔ لوگ اس کے منہ پر تو کچھ نہ کہتے تھے مگر اکثر نائی موچی باہر نہر کے کنارے آباد بازار میں اکٹھے بیٹھتے تو دبے دبے اکبر خان  کی اس عادت کو برا جانتے۔ جیسے، نورا حجام ایک دن  ریتی پر استرا تیز کرتے ہوئے  سامنے بیٹھے شکو موچی  سے کہنے لگا کہ،
 'تجھے پتہ مسیت میں اکبر خان نے مصلیٰ تک اپنے لیے علیحدہ سے لگوا لیا ہے۔ آگے مولوی کا مصلیٰ ہوتا ہے اور ایک سجدہ چھوڑ کر اس کا مصلیٰ ہے۔ کاردار نے بتایا کہ خان نے یہ مصلیٰ خصوصاً مدینے سے منگوایا ہے"۔
 شکو موچی جو بے دھیانی سے اس کی بات سنتے ہوئے گھسے جوتوں میں سوئے تار رہا تھا، مدینے کا زکر سن کر ایک دم مودب ہو گیا ۔ دونوں انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر دبائے اور کہنے لگا، "مولا برکت ڈالے۔ خدا جانتا ہے بستی میں اس کی وجہ سے مسجدمیں سب کو سہولت ہوتی ہے۔ پانی سارے پہر ٹونٹیوں تک میں آتا ہے اور  پھر مسافروں کے لیے اس نے جو بندوبست کر رکھا ہے، اللہ مولا کی سنت ہے۔"
اس پر نورے نے برا سا منہ بنا کر مسافروں کی آل اولاد میں حرام نطفہ گھسیڑا اور بولا،
 " شکو، حرام پنا نہ کر۔ خان کی خود کی حالت یہ ہے کہ رات عورتوں کی گود اور فجر مولوی کے پیچھے گزرتی ہے۔ اللہ مجھے معاف کرے، میں نے تو فجر سے توبہ کر لی۔ سویر وہ نام تو خدا کا پڑھ رہا ہوتا ہے مگر منہ کپی کی باس مارتا رہتا ہے۔ جماعت حرام  ہو توایسی مکروہ  نماز کا فائدہ؟" اس پر شکو نے بھی استغفار پڑھی اور گویا ہوا کہ،
"باقی تو سب ٹھیک ہے، بس اس کی یہ عورتوں والی بد عادت چلی جائے تو بندہ ہیرا  ہے، ہیرا۔" اب کے شفیے درزی نے شلوار کے نیفے کا عرض سلائی مشین میں فٹ کیا اور ہتھ دستی سے کھٹ کھٹ کرتے لقمہ دیا کہ،
 "بات یہ ہے بھائیو کہ اکبر خان مسجد میں نماز پڑھ کر خدا کو راضی رکھتا ہے، مگر پہلی صف میں کھڑے ہونے کی عادت اس کے دادے والی ہے۔ میرا ابا کہا کرتا تھا کہ جتوئیوں کو خدا کی زمین تو عطا ہوئی ہی ہے مگر وہ مسیت کے بھی زمہ دار ہیں۔ کہو تووہ مسیت میں بھی خدا کے شریکے ہیں"۔  ان لوگوں کی یہ  بحث  ہمیشہ کی طرح تب بند ہوئی جب اکبر خان کا منشی طوفا وہاں آ کر بیٹھ گیا اور حقہ سلگا کر تاشوں کی بازیاں چلنے لگیں۔ شکو، نورےاور شفیے نے اپنا دھندہ ویسا چھوڑ  کر دن بھر کی کمائی تھڑے پر جوئے میں جھونک دی۔
شام میں اکبر خان باہر ہوا خوری کو نکلا کرتا تھا۔ اس روز بھی  جب وہ بازار میں نکلا تو منشی بازی آدھی چھوڑ کر اس کے پیچھے دوڑا تو شکو نے منہ نیچے کر کے پاس بیٹھے شفیے کی ران دبا کر کہا کہ، "لے بھئی شفیے،طافو دلال  خان کے لیے رات کا  انتظام پوچھنے گیا ہے۔" اور شکو جو ان دونوں کو سن رہا تھا طافو کو واپس آتا دیکھ کر بولا، "رب جانے کس مزارعے کی فصل  میں یہ حرامی کھوٹ نکالے گا۔" اور طافو نے جیسے شکو کی یہ بات سن لی ہو، انجان بن کر چلتے چلتے  رقم سمیٹتے بولا،
 "آج کی بازی تو سجنو میں لے  ہی گیا، اب دیکھو کس دن خان کا باز تم حرامزادوں کی چڑیوں پر نظر ڈالتا ہے۔" اس کی موجودگی میں تو کسی کو ہمت نہ ہوئی، اس کے جانے کے بعد سب نے خان اور اس کے دلال کی  زبانی کلامی خبر لی۔
منشی  طافو کا کام دلال جیسا تھا۔ وہ اکبر خان کے لیے مزارعوں کی عورتیں ڈھویا کرتا تھا۔ اس کے پاس سب کا حساب تھا اور جس مزارعے کی کوئی عورت تارنے والی ہوتی تو اس کے حساب میں ردبدل بھی ہو جاتا تھا۔ اکثر تو اس کی ضرورت بھی پیش نہ آتی تھی اور اس دن بھی شام جب وہ گجو کی بیٹی کو گائے کی طرح اپنے ساتھ ہانک کر  ڈیرے پر پہنچا تو شام پڑنے والی تھی ۔ اکبر خان کچھ افسردہ سا باہر  کھلے میں چارپائی پر لیٹا تھا ۔ گجوکی بیٹی کو وہ اندر چھوڑ کر خان کے پاس آیا تو اکبر خان نے اسے منع کر دیا۔ طافو حیرانگی سے اسے تکنے لگا کہ ماجرا کیا ہے۔ اکبر خان نے اٹھ کر حقے کا پائپ چارپائی کی پائنتی میں پھنسایا اور بولا،
"جگو سپیرا سنابستی میں واپس آ گیا ہے؟" اس پر طافو نے بتایا کہ وہ دو تین دن ہوئے اپنے کڈے کے ساتھ واپس آ گیا ہے اور اس بارکہتا ہے کہ اچھے خاصے رنگ برنگے چھوٹے بڑے کئی سانپ پکڑلایا ہے۔ اسی وجہ سے بستی میں اچھی خاصی رونق لگی ہوئی ہے۔ اکبر خان نے ان سنی کر کے پوچھا
"نوری بھی آئی ہے؟"
 گو طافومعاملہ تو پہلے ہی سمجھ گیا تھا بس اکبر خان کے منہ سے سننا چاہتا تھا۔
نوری جگو سپیرے کی سب سے بڑی لڑکی تھی۔  بس پچھلے سال ہی اس کی جوانی نکلی تھی۔ سانولی اور بھرے گالوں والی۔ لانبی زلفیں گُت بنا کر یہاں وہاں گھماتے پھرتی۔ نکلتا قد اور ابھرا سینہ خم کھاتی کمر میں اور بھی بھلا نظر آتا۔ باپ کے ساتھ سانپوں کا تماشہ کرنے نکلتی تو لوگوں کی نظریں اس کو ٹٹولتیں، سنپولیوں جیسی ہر جسمانی خم دار ادا  مسحور کن سی سب کو محو کر دیتی،یہاں تک کہ جگو سپیرے کو لاٹھی زمین پر مار مارلوگوں کو  سانپوں کی طرف متوجہ  کرنا پڑتا۔ الغرض، جس کو دیکھو سانپوں کے بہانے نوری کو دیکھنے نکلا کرتا تھا اور پھر کئی سو روپے بے سود پھکیوں پر خرچ کر کے اٹھتا اور  کہو تو سمجھتا ،منافعے میں رہا۔ اکبر خان نے جب سے نوری کا  یہ نظارہ کیا تھا ،باؤلے کتے جیسے ہر وقت اس کی مشک مارتا رہتا تھا۔ اس رات بھی گجو کی بیٹی جب اس کے بستر میں گھسی تو خان کا دھیان دور بستی میں نوری کی طرف بٹا ہوا تھا، سویر واپس جاتے ہوئے گجو کی بیٹی  شرمندہ سی روانہ ہوئی ۔اگلے روز تو جیسے آپے سے باہر ہو گیا۔ تین نمازیں وہ مسجد نہ جا سکا، اور صف میں اس کی جگہ پر کسی دوسرے کو کھڑے ہونے کی ہمت نہ ہوئی۔ اس کا مصلیٰ ویسا ہی خالی چھوڑ کر نمازیں ادا کرنی پڑیں اور اس شام نورے حجام کا گلہ یہ تھا کہ تین نمازیں صف میں خالی مصلےٰ کی وجہ سے مکروہ ہو گئیں۔ خان بدبخت، مسیت جائے یا نہیں، نمازیں سب کی مکروہ ہو جاتی ہیں۔
طافو منشی آج تیسرا دن تھا کہ نوری کے پیچھے پیچھے کتے کی طرح سونگھ لے رہا تھا مگر یہ تھی کہ اس کے ہاتھ نہ آتی۔ پل کو جھگی سے نکلی اور پھر گھس رہی۔ پچھلی شام سانپوں کا تماشہ بھی نہیں ہوا تھا تو طافو کی مشکل اور بھی بڑھ گئی۔ تبھی اس کو جب اکبر خان نے خوب لعن طعن کیا تو اس نے نوری کے باپ جگو سپیرے سے بات کرنے کی سوچ لی۔ اس کی جھگی میں جا کر اسے  نوری کے لیے خان کا پیغام پہنچایا جس پر جگو کی باچھیں کھلی رہ گئیں۔ پہلے تو اس نے پس و پیش سے کام لیا اور پھر جب طافو نے ہلکے سے اسے خمیازے کا اندازہ کروایا تو منت ترلے پر آ گیا، منمنا کر ہاتھ جوڑے اور جیسے باور کرایا، "مائی باپ، ہم سپیرے آزاد ہوتے ہیں اور عورت زات تو ویسے بھی اپنے من کی غلام ہوتی ہے، اس کو کوئی قابو کر پایا ہو؟ نوری میرا مال ہے مگر اس کا فیصلہ وہی دیوے گی" طافو سمجھ گیا کہ یہ بات اس نے ٹالنے کو کہی تھی ورنہ عورت زات کی ایسی کہاں جرات جو انکار کر پاتی۔ وہ تو  کلے سے لگی گائے ہے جسے سبزے کی لالچ دو اور اسے ساتھ ہنکائے چلے جانا چاہیے۔ پھر مزارعوں کی طرح گو جگو سپیرا خان کا محتاج نہیں تھا مگر پھر بھی خان بہرحال خان تھا، اس چپے زمین کا مائی باپ تھا جہاں سے جگو سپیرا نہ صرف سانپ پکڑا کرتا تھا اور پھر وہیں ان سانپوں کے بل پر اپنے کڈے کا پیٹ بھرتا تھا۔ بالواسطہ، جگو سپیرا اکبر خان کا دیا نمک ہی کھا رہا تھا۔ طافو نے اس کو مہلت دی اور جب واپس تھڑے پر پہنچا تو تینوں کمی خان کی نوری واسطے رسے تڑوانے کی بحث لیے ہی بیٹھے تھے ۔ ان کو یہ تو معلوم تھا کہ نوری آج نہیں تو کل خان کی کھونٹی سے بندھ ہی جائے گی، دیکھنا یہ تھا کہ یہ ناگن کس منتر سے کیل جائے گی۔
چوتھے دن ہی اکبر خان کا پیمانہ لبریز ہو گیا جب نوری نے ٹکا انکار کر دیا۔ کاردار کو کہلوا کر  نوری کو جھگی سے اٹھوا لایا اور پہلے تو اسے سمجھایا اور یقین دلایا مگر یہ تھی کہ جیسے ناگن پھنکارتی اس کو قریب نہ لگنے دیتی تھی، خان نے جب خود اس سے بات کی تو تڑک کر بولی
 "مر جاوں گی مگر حرام سے خود کو پلید نہیں ہونے دوں  گی"۔
 اس پر اکبر خان نے سر شام ہی مولوی کو بلا کر نکاح پڑھوا نا چاہا تو نوری اور بھی  بدک گئی۔کسی طور بھی نہ مانی تو  اکبرخان کی مردانگی نے جوش مارا اور مولوی کو رخصت کر خود اس کے پاس ڈیرے میں جا گھسا۔ پہلے تو اس سے نرمی برتی مگر جب یہ بالکل بھی ہتھے نہ لگتی تھی تبھی اس نے زبردستی اس کو بھینچ لیا۔ چادر کھینچی تو اس میں سے ایک میلی کچیلی پوٹلی تھپ سے زمین پر جا گری جس کا منہ کھلا ہوا تھا ۔اکبر خان جو نوری کو قابو کرنے میں اتنا مگن تھا بالکل بھی دھیان نہ گیا اور پوٹلی میں سے سنہرے رنگ کاناجی، مشکی ناگ پھنکارتا ہوا نکلا ۔ سنسناتی پھنکار سنتے ہی اکبرخان کی ساری مردانگی ہوا ہو گئی اور وہ نوری کو ویسا  چھوڑ کر ابھی مشکی کی طرف مڑا ہی تھا کہ اس کے دونوں دانت اکبرخان کی ٹانگ میں گڑ گئے۔ اکبرخان کی ایک چیخ بلند ہوئی اور نوری نیم عریاں دوڑتی ہوئی باہر نکل گئی ۔ طافو اور کاردار دوڑے ہوئے اندر پہنچے تو اکبر خان کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی۔ دو نالی کے ایک فائر سے کاردار نے مشکی کا کام تمام کیا تو یہاں اکبر خان نے آخری ہچکی لی۔
سویر تک اکبر خان کے دونوں بیٹے پہنچ گئے اور قبر کھود لی گئی۔اکبر خان کا جنازہ اٹھایا گیا تھا تو منہ کالا سیاہ ہو رہا تھا۔ جنازہ گاہ میں مولوی نے پہلے تو اکبر خان کی بڑائی بیان کی اور خدا کے گھر اور سینکڑوں مزارعوں کے گھروں  واسطے اس کی خدمات پر سیر حاصل تبصرہ کیا۔ اس کے بعدلوگوں کو مخاطب کر کے موت کی حقیقت پر  توجہ مبذول کروائی اور پہلی تکبیرکہنے سے پہلے،  ہدایات کچھ یوں گوش گزار کیں،
"اے لوگو، صفیں درست رکھو، ٹخنے سے ٹخنہ اور کندھے سے کندھا ملا لو۔اگر زمین پاک ہے تو جوتے اتار لو ورنہ پہنے رہنے میں کوئی حرج نہیں۔ صفوں کے درمیاں جگہ خالی نہ چھوڑو ورنہ شیطان وہ جگہ پر کر لیا کرتا ہے"
مولوی کا اتنا کہنا تھا کہ سب کی نگاہیں پہلی صف پر جا کر ٹک گئیں جہاں مولوی کے پیچھے ایک جگہ خالی تھی ۔ اس جگہ پر ہمیشہ اکبر خان کو کھڑے رہنے کا خبط رہا کرتا تھا اور اسے پر کرنے کی ابھی تک کسی کو ہمت نہ تھی۔
-افسانہ-

Wednesday 15 May 2013

دانا


ایک شادی شدہ نے کہا : عورت تو پاؤں کی جوتی ہوا کرتی ہے، مرد کو جب بھی اپنے لئے کوئی مناسب سائز کی نظر آئے بدل لیا کرے۔ سننے والوں نے محفل میں بیٹھے ہوئے ایک دانا کی طرف دیکھا اور پوچھا: اس شخص کی کہی ہوئی اس بات کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ اس نے جواب دیا: جو کچھ اس شخص نے کہا ہے بالکل صحیح کہا ہے۔ عورت جوتی کی مانند ہے ہر اس شخص کے لئے جو اپنے آپ کو پاؤں کی مانند سمجھتا ہے۔ جبکہ عورت ایک تاج کی مانند بھی ہو سکتی ہے مگر اس شخص کے لئے جو اپنے آپ کو بادشاہ کی مانند سمجھتا ہو۔
کسی آدمی کو اس کی کہی ہوئی بات کی وجہ سے کوئی الزام نا دو، بس اتنا دیکھ لو کہ وہ اپنے آپ کو اپنی نظروں میں کیسا دیکھ رہا ہوتا ہے۔