Monday 30 September 2013

مسعود ظفر علاء الدین

زلف بکھری جو ان کے شانے پر
ہوش بھی نہ رہا ٹھکانے پر

میں تو بکھرا تھا مثل سنگریزہ
شوخ نظروں کے تازیانے پر

آرزو تھی کہ ہم بھی گائیں گے
یاں تو بندش ہے گنگنانے پر

ہم نے سوچا تھا عشق کرتے ہیں
آگئی عقل اب ٹھکانے پر

کلام ۔ بابا بُلھے شاہ

چَڑھدے سورج ڈَھلدے ویکھے
بُجھے دِیوے بَلدے ویکھے
ہِیرے دا کوئی مُل نہ تارے
کھوٹے سِکے چَلدے ویکھے
جِنّاں دا نہ جَگ تے کوئ
اَو وی پُتر پَلدے ویکھے
اوہدی رحمت نال بندے
پانی اُتّے چَلدے ویکھے
لَوکی کہندے دال نئیں گَلدی
میں تے پَتھّر گَلدے ویکھے
جِنھاں قَدر نہ کیتی یار دی بُلھیا
ہَتھ خالی اَو مَلدے ویکھے 

Sunday 22 September 2013

غزل از ڈاکٹر جاوید جمیل

الطاف کی بارش ہے گمراہ شریروں پر
طوفاں ہیں مصائب کے نیکی کے سفیروں پر

جب زیست میں آئے گا، دیکھے گا تعجب سے
بیٹھا ہوں تری خاطر الفت کے ذخیروں پر

رہتا ہوں تخیل میں سائے میں ستاروں کے
لکھی ہے مری قسمت شنبنم کی لکیروں پر

بے نام غریبوں کی پروا ہے یہاں کس کو
انعام برستے ہیں بد نام امیروں پر

منزل ہے فقط انکی خود اپنی ہوس پرسی
پھر کیسے بھروسہ ہو ان جیسے مشیروں پر

نفرت کی نففسیات

اشتہار میں اُس عورت کی تصویر دیکھ کر میرا خون کھول اٹھا۔ بےاختیار میری زبان سے نکلا: گندی غلیظ عورت‘‘، وہ پورے جوش سے اپنی بات بیان کررہے تھے جسے میں خاموشی سے سن رہا تھا۔ مگر اس جملے کے بعد وہ لمحہ بھر ٹھہرے اور مجھے دیکھتے ہوئے بولے:
’’پھر اچانک مجھے آپ کی تحریروں کا خیال آیااور بے ساختہ میری زبان سے نکلا: پروردگار اسے ہدایت دے۔ یہ خاتون نہیں جانتی کہ یہ چند پیسوں کے لیے کیا کررہی ہے۔‘‘
یہ صاحب مجھے اپنے رویے میں آنے والی تبدیلی کی داستان سنارہے تھے۔ معاشرے میں پھیلتے فواحش سے یہ بہت نالاں تھے اور میڈیا کو اس کا ذمہ دار سمجھتے تھے۔ جس خاتون کا وہ ذکر کررہے تھے وہ ملک کی ایک معروف ٹی وی اداکارہ اور ماڈل تھی۔ یہ خاتون ٹی وی پروگراموں اور اشتہارات میں خواتین کے لباس کے حوالے سے کئی نامناسب رویے متعارف کرانے میں پیش پیش تھی۔ ایک شاپنگ سنٹر میں انہوں نے اس کا ایک اشتہار دیکھا اور وہیں غصے اور جذبات میں ان کے منہ سے وہ جملہ نکلا جو شروع میں نقل کیا گیا ہے۔
ان کی بات میں وقفہ آیا تو میں نے وضاحت چاہی کہ یک بیک آنے والی اس تبدیلی کی وجہ کیا تھی۔ انہوں نے جواب دیا:
’’بات یہ ہے کہ میں پہلے اپنے سابقہ خیالات کے تحت ایسے لوگوں سے نفرت کرتاتھا۔ میں پورے دینی جذبے کے ساتھ ان کو اسلام دشمن اور قابل گردن زدنی قرار دیتا تھا۔ مگر آپ کی تحریریں پڑھ کر احساس ہونا شروع ہوا کہ نفرت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نہیں۔ یہاں تو دعوت دی جاتی ہے۔ تربیت کی جاتی ہے۔ صحیح بات بتائی جاتی ہے۔ لوگ نہ مانیں تب بھی ان سے مایوس نہیں ہوا جاتا۔ ان کے لیے دعا کی جاتی ہے اور معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔‘‘
وہ ایک لمحے کے لیے رکے اور پھر بولے:
’’لیکن نفرت کرتے ہوئے ساری زندگی ہوگئی تھی۔ اس لیے عادت پڑچکی تھی۔ یہی اُس روز بھی ہوا۔میرے منہ سے بے ساختہ گندی غلیظ عورت کے الفاظ نکل گئے۔ مگر اگلے لمحے مجھے یہ سب یاد آگیا۔ اور پھر میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور اس عورت کے لیے بہت دعا کی۔‘‘
’’پہلے اور اب میں آپ کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟‘، میں نے دریافت کیا۔

’’نفرت کی نفسیات سب سے زیادہ مجھے نقصان پہنچاتی تھی۔ وہ میرے جسم اور دماغ کو تو نقصان پہنچاتی ہی تھی، مگر میرے ایمان کو بھی بھسم کررہی تھی۔ مجھے یہ بات پہلی دفعہ اس روز معلوم ہوئی۔ کیونکہ جب میں نے ایک نفرت آمیز جملے کے بعد اس کے لیے دعا کرنی شروع کی تو میں نے اللہ تعالیٰ سے اتنی زیادہ قربت محسوس کی کہ کچھ حد نہیں۔ مجھے لگا کہ فرشتوں نے مجھے چاروں طرف سے گھیر لیا ہے۔ مجھے زندگی میں پہلی دفعہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ جو لوگ رب کے نافرمان ہوتے ہیں، ان کی نافرمانی کے باوجود، اللہ تعالیٰ کے دل میں ان کے لیے بے پناہ محبت ہوتی ہے۔ مجھے پہلی دفعہ معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دلی کیفیات کیا ہوتی تھیں۔ وہ کس طرح لوگوں کے لیے تڑپتے تھے۔
مجھے نہیں پتہ کہ میری دعا سے وہ لڑکی راہ راست پر آئے گی یا نہیں۔ مگر اس روز میں نے اللہ، اس کے رسول اور اس کے فرشتوں کی قربت کا ایسا تجربہ کیا جس کے بعد مجھے معلوم ہوگیا کہ یہی صحیح راستہ ہے۔ یہی پیغمبروں کا راستہ ہے۔ یہی اللہ کا پسندیدہ طریقہ ہے۔‘‘
وہ چپ ہوئے تو میں نے کہا کہ آپ کا پاکیزہ تجربہ آپ کو بہت مبارک ہو۔ مگر میں اطمینان دلاتا ہوں کہ وہ لڑکی بھی راہ راست پر آجائے گی۔ وہ نہ بھی آئے تو آپ کی وجہ سے کئی اور لڑکیاں اس راہ پر چلنے سے رک جائیں گی۔ اس لیے کہ اللہ کو پکارنا کبھی ضائع نہیں جاتا۔