Thursday 2 March 2017

ملکیت متعین ہونی چاہئیں


=================
حضور اقدس کی تعلیم یہ ہے کہ معاملات چاہے بھائیوں کے درمیان ہوں ، باپ بیٹے کے درمیان ہوں ، شوہر اور بیوی کے درمیان ہوں ۔وہ معاملات بالکل صاف اور بے غبار ہونے چاہئیں اور ان میں کوئی غبار نہ ہونا چاہیے ۔ اور ملکیتیں آپس میں متعین ہونی چاہئیں کہ کونسی چیز باپ کی ملکیت ہے اور کونسی چیز بیٹے کی ملکیت ہے ۔ کونسی چیز شوہر کی ملکیت ہے اور کونسی چیز بیوی کی ملکیت ہے۔ کونسی چیز ایک بھائی کی ہے اور کونسی چیز دوسرے بھائی کی ہے ۔یہ ساری بات واضح اور صاف ہونی چاہیے ،یہ نبی کریم کی تعلیم ہے ۔ چنانچہ اہل عرب کا محاورہ ہے ۔ تعاشرواکالاخوان ، تعاملو ا کالا جانب یعنی بھائیوں کی طرح رہو ،لیکن آپس کے معاملات اجنبیوں کی طرح کرو۔ مثلاً اگر قرض کا لین دین کیا جارہا ہے تو اس کو لکھ لو کہ یہ قرض کا معاملہ ہے ، اتنے دن کے بعد اس کی واپسی ہوگی ۔
آج ہمارا معاشرہ اس بات سے بھرا ہواہے کہ کوئی بات صاف ہی نہیں ۔ اگر باپ بیٹوں کے درمیان کاروبار ہے تو وہ کاروبار ویسے ہی چل رہاہے ، اس کی کوئی وضاحت نہیں ہوتی کہ بیٹے کے ساتھ جو کام کررہے ہیں وہ آیا شریک کی حیثیت میں کررہے ہیں ، یا ملازم کی حیثیت میں کررہے ہیں ، یا ویسے ہی باپ کی مفت مدد کررہے ہیں ، اس کا کچھ پتہ نہیں مگر تجارت ہورہی ہے ، ملیں قائم ہو رہی ہیں ،دکانیں بڑھتی جارہی ہیں ، مال اور جائیداد بڑھتا جارہاہے ۔ لیکن یہ پتہ نہیں ہے کہ کس کا کتناحصہ ہے ۔ اگر ان سے کہا بھی جائے کہ اپنے معاملات کو صاف کرو، تو جواب یہ دیا جاتاہے کہ یہ تو غیرت کی بات ہے ۔ بھائیوں بھائیوں میں صفائی کی کیا ضرورت ہے ؟ یا باپ بیٹوں میں صفائی کی کیا ضرورت ہے ؟اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب شادیاں ہو جاتی ہیں اور بچے ہوجاتے ہیں اور شادی میں کسی نے زیادہ خرچ کر لیا اور کسی نے کم خرچ کیا ۔ یا ایک بھائی نے مکان بنا لیا اور دوسرے نے ابھی تک مکان نہیں بنایا ۔ بس اب دل میں شکایتیں اور ایک دوسرے کی طرف سے کینہ پیدا ہونا شروع ہو گیا ، اور اب آپس میں جھگڑے شروع ہوگئے کہ فلاں زیادہ کھا گیا اور مجھے کم ملا ۔ اور اگر اس دوران باپ کا انتقال ہو جائے تو اس کےبعد بھائیوں کےدرمیان جو لڑائی اور جھگڑے ہوتے ہیں وہ لامتناہی ہوتے ہیں ، پھر ان کے حل کا کوئی راستہ نہیں ہوتا

Tuesday 21 February 2017

اتنے نازک ھیں۔۔


رُکو تو تم کو بتائیں، وہ اتنے نازک ہیں

کلی اَکیلے اُٹھائیں، وہ اتنے نازک ہیں

کہا طبیب نے ، گر رَنگ گورا رَکھنا ہے
تو چاندنی سے بچائیں، وہ اتنے نازک ہیں

وُہ بادلوں پہ کمر ’سیدھی رَکھنے کو سوئیں
کرن کا تکیہ بنائیں، وہ اتنے نازک ہیں

وُہ نیند کے لیے شبنم کی قُرْص بھی صاحب
کلی سے پوچھ کے کھائیں، وہ اتنے نازک ہیں

بدن کو دیکھ لیں بادل تو غسل ہو جائے
دَھنک سے خشک کرائیں، وہ اتنے نازک ہیں

سیاہی شب کی ہے چشمِ غزال کو سُرمہ
حیا کا غازہ لگائیں، وہ اتنے نازک ہیں

وُہ دو قدم چلیں پانی پہ ، دیکھ کر چھالے
گھٹائیں گود اُٹھائیں، وہ اتنے نازک ہیں

کلی جو چٹکے تو نازُک ترین ہاتھوں سے
وُہ دونوں کان چھپائیں، وہ اتنے نازک ہیں
سریلی فاختہ کُوکے جو تین مُلک پرے
شکایت اُس کی لگائیں، وہ اتنے نازک ہیں

پسینہ آئے تو دو تتلیاں قریب آ کر
پروں کو سُر میں ہلائیں، وہ اتنے نازک ہیں

ہَوائی بوسہ دِیا پھول نے ، بنا ڈِمپل
اُجالے ، جسم دَبائیں، وہ اتنے نازک ہیں

وُہ گھپ اَندھیرے میں خیرہ نگاہ بیٹھے ہیں
اَب اور ہم کیا بجھائیں، وہ اتنے نازک ہیں

وُہ گنگنائیں تو ہونٹوں پہ نیل پڑ جائیں
سخن پہ پہرے بٹھائیں، وہ اتنے نازک ہیں

وُہ زیورات کی تصویر ساتھ رَکھتے ہیں
یا گھر بلا کے دِکھائیں، وہ اتنے نازک ہیں

کبوتروں سے کراتے تھے بادشاہ جو کام
وُہ تتلیوں سے کرائیں، وہ اتنے نازک ہیں

وُہ پانچ خط لکھیں تو ’’شکریہ‘‘ کا لفظ بنے
ذِرا حساب لگائیں، وہ اتنے نازک ہیں
گواہی دینے وُہ جاتے تو ہیں پر اُن کی جگہ
قسم بھی لوگ اُٹھائیں، وہ اتنے نازک ہیں

بس اِس دلیل پہ کرتے نہیں وُہ سالگرہ
کہ شمع کیسے بجھائیں، وہ اتنے نازک ہیں

وُہ سانس لیتے ہیں تو اُس سے سانس چڑھتا ہے
سو رَقص کیسے دِکھائیں، وہ اتنے نازک ہیں

شراب پینا کجا ، نام جام کا سن لیں
تو جھوم جھوم سے جائیں، وہ اتنے نازک ہیں

نزاکت ایسی کہ جگنو سے ہاتھ جل جائے
جلے پہ خوشبو لگائیں، وہ اتنے نازک ہیں

گھروندے ریت سے ساحل پہ سب بناتے ہیں
وُہ بادلوں پہ بنائیں، وہ اتنے نازک ہیں

جلا کے شمع وُہ جب غُسلِ آفتاب کریں
سفیدی رُخ پہ لگائیں، وہ اتنے نازک ہیں

شکار کرنے کو جانا ہے ، کہتے جاتے ہیں
پکڑنے تتلی جو جائیں، وہ اتنے نازک ہیں

شکاریوں میں اُنہیں بھی جو دیکھیں زَخمی شیر
تو مر تو شرم سے جائیں، وہ اتنے نازک ہیں

اُٹھا کے لاتے جو تتلی تو موچ آ جاتی
گھسیٹتے ہُوئے لائیں، وہ اتنے نازک ہیں

کلی کو سونگھیں تو خوشبو سے پیٹ بھر جائے
مزید سونگھ نہ پائیں، وہ اتنے نازک ہیں

غلام چٹکی نہ سننے پہ مرتے مرتے کہیں
خدارا تالی بجائیں، وہ اتنے نازک ہیں

نکاح خوان کو بس ’’ایک‘‘ بار وَقتِ قُبول
جھکا کے پلکیں دِکھائیں، وہ اتنے نازک ہیں

ہر ایک کام کو مختارِ خاص رَکھتے ہیں
سو عشق خود نہ لڑائیں، وہ اتنے نازک ہیں

اُتار دیتے ہیں بالائی ، سادہ پانی کی
پھر اُس میں پانی ملائیں، وہ اتنے نازک ہیں

وُہ دَھڑکنوں کی دَھمک سے لرزنے لگتے ہیں
گلے سے کیسے لگائیں، وہ اتنے نازک ہیں

وُہ سیر ، صبح کی کرتے ہیں خواب میں چل کر
وَزن کو سو کے گھٹائیں، وہ اتنے نازک ہیں

وَزن گھٹانے کا نسخہ بتائیں کانٹوں کو
پھر اُن کو چل کے دِکھائیں، وہ اتنے نازک ہیں