روٹھنا مجھ سے مگر خود کو سزا مت دینا
زلف رخسار سے کھیلے تو ہٹا مت دینا
میرے اس جرم کی قسطوں میں سزا مت دینا
بے وفائی کا صلہ یار وفا مت دینا
کون آئے گا دہکتے ہوئے شعلوں کے پرے
تھک کے سو جاؤں تو اے خواب جگہ مت دینا
ساری دنیا کو جلا دے گا ترا آگ کا کھیل
بھڑکے جذبات کو آنچل کی ہوا مت دینا
خون ہو جائیں نہ قسمت کی لکیریں تیری
میلے ہاتھوں کو کبھی رنگے حنا مت دینا
اوچھی پلکوں پہ حسیں خواب سجانے والے
میری آنکھوں سے میری نیند اڑا مت دینا
سوچ لینا کوئی تاویل مناسب لیکن
اس ہتھیلی سے مرا نام مٹا مت دینا
No comments:
Post a Comment
غیر اخلاقی تبصرے حذف کر دیے جائیں گے اپنا نام ضرور لکھیں تاکہ جواب دینے میں آسانی ہو