آدھی رات کا وقت تھا معصوم سا بچہ سارے دن کی شرارتوں کے بعد تھک کر
باپ کی آغوش میں سویا ہوا تھا تب باپ اٹھا
اسے جانا تھا بہت دور .
یوں جانا بہت مشکل تھا مگر اور بھی غم ہیں زمانے میں محبّت کے سوا
اس نے ہزار بار سوچا نہ جانے کی کوئی ایک سبیل اور رک جاے
آخر جی کڑا کر کے نکل کھڑا ہوا سارے راستسے ہزار بہانے سوچے کہ رک جاے .گاڑی تاریک راستوں پر چلتی جیسے اسے زندگی کی حقیقتوں سے آشنا کرتی جاتی تھی اور وہ ہزار طریقے سے گھر سے دور جانے سے بچنا چاہتا تھا اب شہر کی روشنیاں ان کا استقبال کر رہی تھیں اور وہ فیصلہ کرنے ہی والا تھا .
یکدم گاڑی جھٹکے سے رکی اور جیسے اسے کسی نے یادوں کے سمندر سے کھینچ نکالا ہو کیا ہوا
کچھ نہیں
ڈرائیور کی آواز ابھری شہر میں داخلے کا ناکہ ہے .
اچھا .تو چیک کیوں نہیں کرتے .نہیں انہیں پاس دے دیا ہے
پاس؟ارے بھائی 200 روپے
اب اس کے ہوش ٹھکانے آ چکے تھے
ہوائی اڈے تک ٣ ناکے آیے اور ہر ایک پر پاس دینا پڑا کہیں کم کہیں زیادہ
اب اس کے پاس رکنے کی کوئی وجہ باقی نہیں تھی اور جو دل سارے رستے ہزار بہانے سوچتا آیا تھا اب جانے کو پوری طرح تیار تھا
No comments:
Post a Comment
غیر اخلاقی تبصرے حذف کر دیے جائیں گے اپنا نام ضرور لکھیں تاکہ جواب دینے میں آسانی ہو