اپنی رسوائی، ترے نام کا چرچا دیکھوں
اِک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں
نیند آجائے تو کیا محفلیں برپا دیکھوں
آنکھ کُھل جائے تو تنہائی کا صحرادیکھوں
شام بھی ہوگئی،دُھند لاگئیں آنکھیں بھی مری
بُھولنے والے،میں کب تک ترارَستا دیکھوں
ایک اِک کرکے مجھے چھوڑ گئیں سب سکھیاں
آج میں خُود کو تری یاد میں تنہا دیکھوں
کاش صندل سے مری مانگ اُجالے آکر
اتنے غیروں میں وہی ہاتھ ،جو اپنا دیکھوں
تو مرا کُچھ نہیں لگتاہے مگر جانِ حیات!
جانے کیوں تیرے لیے دل کو دھڑکتا دیکھوں!
بند کرکے مِری آنکھیں وہ شرارت سے ہنسے
بُوجھے جانے کا میں ہر روز تماشہ دیکھوں
سب ضِدیں اُس کی مِیں پوری کروں ،ہر بات سُنوں
ایک بچے کی طرح سے اُسے ہنستا دیکھوں
مُجھ پہ چھا جائے وہ برسات کی خوشبو کی طرح
انگ انگ اپنا اسی رُت میں مہکتا دیکھوں
پُھول کی طرح مرے جسم کا ہر لب کِھل جائے
پنکھڑی پنکھڑی اُن ہونٹوں کا سایا دیکھوں
میں نے جس لمحے کو پُوجا ہے،اُسے بس اِک بار
اب بن کر تری آنکھوں میں اُترتا دیکھوں
تو مری طرح سے یکتا ہے، مگر میرے حبیب!
جی میں آتا ہے، کوئی اور بھی تجھ سا دیکھوں
ٹُوٹ جائیں کہ پگھل جائیں مرے کچے گھڑے
تجھ کو میں دیکھوں کہ یہ آگ کا دریا دیکھوں
دیار غیر میں بسنے والوں کی اول فول جو ایک ہوم سکنس نامی بیماری کی وجہ سے بکی گی امید ہے آپ کو پسند آیے گی بلاگ کی اکثر تحاریر مشہور لکھاریوں کے بلاگ سے بصد شکریہ اور احترام کے لی جاتی ہیں
Tuesday, 19 February 2013
کیا دیکھوں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment
غیر اخلاقی تبصرے حذف کر دیے جائیں گے اپنا نام ضرور لکھیں تاکہ جواب دینے میں آسانی ہو