Monday 30 September 2013

مسعود ظفر علاء الدین

زلف بکھری جو ان کے شانے پر
ہوش بھی نہ رہا ٹھکانے پر

میں تو بکھرا تھا مثل سنگریزہ
شوخ نظروں کے تازیانے پر

آرزو تھی کہ ہم بھی گائیں گے
یاں تو بندش ہے گنگنانے پر

ہم نے سوچا تھا عشق کرتے ہیں
آگئی عقل اب ٹھکانے پر

کلام ۔ بابا بُلھے شاہ

چَڑھدے سورج ڈَھلدے ویکھے
بُجھے دِیوے بَلدے ویکھے
ہِیرے دا کوئی مُل نہ تارے
کھوٹے سِکے چَلدے ویکھے
جِنّاں دا نہ جَگ تے کوئ
اَو وی پُتر پَلدے ویکھے
اوہدی رحمت نال بندے
پانی اُتّے چَلدے ویکھے
لَوکی کہندے دال نئیں گَلدی
میں تے پَتھّر گَلدے ویکھے
جِنھاں قَدر نہ کیتی یار دی بُلھیا
ہَتھ خالی اَو مَلدے ویکھے 

Sunday 22 September 2013

غزل از ڈاکٹر جاوید جمیل

الطاف کی بارش ہے گمراہ شریروں پر
طوفاں ہیں مصائب کے نیکی کے سفیروں پر

جب زیست میں آئے گا، دیکھے گا تعجب سے
بیٹھا ہوں تری خاطر الفت کے ذخیروں پر

رہتا ہوں تخیل میں سائے میں ستاروں کے
لکھی ہے مری قسمت شنبنم کی لکیروں پر

بے نام غریبوں کی پروا ہے یہاں کس کو
انعام برستے ہیں بد نام امیروں پر

منزل ہے فقط انکی خود اپنی ہوس پرسی
پھر کیسے بھروسہ ہو ان جیسے مشیروں پر

نفرت کی نففسیات

اشتہار میں اُس عورت کی تصویر دیکھ کر میرا خون کھول اٹھا۔ بےاختیار میری زبان سے نکلا: گندی غلیظ عورت‘‘، وہ پورے جوش سے اپنی بات بیان کررہے تھے جسے میں خاموشی سے سن رہا تھا۔ مگر اس جملے کے بعد وہ لمحہ بھر ٹھہرے اور مجھے دیکھتے ہوئے بولے:
’’پھر اچانک مجھے آپ کی تحریروں کا خیال آیااور بے ساختہ میری زبان سے نکلا: پروردگار اسے ہدایت دے۔ یہ خاتون نہیں جانتی کہ یہ چند پیسوں کے لیے کیا کررہی ہے۔‘‘
یہ صاحب مجھے اپنے رویے میں آنے والی تبدیلی کی داستان سنارہے تھے۔ معاشرے میں پھیلتے فواحش سے یہ بہت نالاں تھے اور میڈیا کو اس کا ذمہ دار سمجھتے تھے۔ جس خاتون کا وہ ذکر کررہے تھے وہ ملک کی ایک معروف ٹی وی اداکارہ اور ماڈل تھی۔ یہ خاتون ٹی وی پروگراموں اور اشتہارات میں خواتین کے لباس کے حوالے سے کئی نامناسب رویے متعارف کرانے میں پیش پیش تھی۔ ایک شاپنگ سنٹر میں انہوں نے اس کا ایک اشتہار دیکھا اور وہیں غصے اور جذبات میں ان کے منہ سے وہ جملہ نکلا جو شروع میں نقل کیا گیا ہے۔
ان کی بات میں وقفہ آیا تو میں نے وضاحت چاہی کہ یک بیک آنے والی اس تبدیلی کی وجہ کیا تھی۔ انہوں نے جواب دیا:
’’بات یہ ہے کہ میں پہلے اپنے سابقہ خیالات کے تحت ایسے لوگوں سے نفرت کرتاتھا۔ میں پورے دینی جذبے کے ساتھ ان کو اسلام دشمن اور قابل گردن زدنی قرار دیتا تھا۔ مگر آپ کی تحریریں پڑھ کر احساس ہونا شروع ہوا کہ نفرت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نہیں۔ یہاں تو دعوت دی جاتی ہے۔ تربیت کی جاتی ہے۔ صحیح بات بتائی جاتی ہے۔ لوگ نہ مانیں تب بھی ان سے مایوس نہیں ہوا جاتا۔ ان کے لیے دعا کی جاتی ہے اور معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔‘‘
وہ ایک لمحے کے لیے رکے اور پھر بولے:
’’لیکن نفرت کرتے ہوئے ساری زندگی ہوگئی تھی۔ اس لیے عادت پڑچکی تھی۔ یہی اُس روز بھی ہوا۔میرے منہ سے بے ساختہ گندی غلیظ عورت کے الفاظ نکل گئے۔ مگر اگلے لمحے مجھے یہ سب یاد آگیا۔ اور پھر میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور اس عورت کے لیے بہت دعا کی۔‘‘
’’پہلے اور اب میں آپ کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟‘، میں نے دریافت کیا۔

’’نفرت کی نفسیات سب سے زیادہ مجھے نقصان پہنچاتی تھی۔ وہ میرے جسم اور دماغ کو تو نقصان پہنچاتی ہی تھی، مگر میرے ایمان کو بھی بھسم کررہی تھی۔ مجھے یہ بات پہلی دفعہ اس روز معلوم ہوئی۔ کیونکہ جب میں نے ایک نفرت آمیز جملے کے بعد اس کے لیے دعا کرنی شروع کی تو میں نے اللہ تعالیٰ سے اتنی زیادہ قربت محسوس کی کہ کچھ حد نہیں۔ مجھے لگا کہ فرشتوں نے مجھے چاروں طرف سے گھیر لیا ہے۔ مجھے زندگی میں پہلی دفعہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ جو لوگ رب کے نافرمان ہوتے ہیں، ان کی نافرمانی کے باوجود، اللہ تعالیٰ کے دل میں ان کے لیے بے پناہ محبت ہوتی ہے۔ مجھے پہلی دفعہ معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دلی کیفیات کیا ہوتی تھیں۔ وہ کس طرح لوگوں کے لیے تڑپتے تھے۔
مجھے نہیں پتہ کہ میری دعا سے وہ لڑکی راہ راست پر آئے گی یا نہیں۔ مگر اس روز میں نے اللہ، اس کے رسول اور اس کے فرشتوں کی قربت کا ایسا تجربہ کیا جس کے بعد مجھے معلوم ہوگیا کہ یہی صحیح راستہ ہے۔ یہی پیغمبروں کا راستہ ہے۔ یہی اللہ کا پسندیدہ طریقہ ہے۔‘‘
وہ چپ ہوئے تو میں نے کہا کہ آپ کا پاکیزہ تجربہ آپ کو بہت مبارک ہو۔ مگر میں اطمینان دلاتا ہوں کہ وہ لڑکی بھی راہ راست پر آجائے گی۔ وہ نہ بھی آئے تو آپ کی وجہ سے کئی اور لڑکیاں اس راہ پر چلنے سے رک جائیں گی۔ اس لیے کہ اللہ کو پکارنا کبھی ضائع نہیں جاتا۔

Tuesday 30 July 2013

ںیرنگ خیال


وہ خط کے پرزے اُڑا رہا تھا
ہواؤں کا رخ دِکھا رہا تھا

بتاؤں کیسے وہ بہتا دریا
جب آ رہا تھا تو جا رہا تھا

کہیں مرا ہی خیال ہو گا
جو آنکھ سے گرتا جا رہا تھا

کچھ اور بھی ہو گیا نمایاں
میں اپنا لکھا مٹا رہا تھا

وہ جسم جیسے چراغ کی لَو
مگر دھواں دِل پہ چھا رہا تھا

منڈیر سے جھک کے چاند کل بھی
پڑوسیوں کو جگا رہا تھا

اسی کا ایماں بدل گیا ہے
کبھی جو میرا خدا رہا تھا

وہ ایک دن ایک اجنبی کو
مری کہانی سنا رہا تھا

وہ عمر کم کر رہا تھا میری
میں سال اپنا بڑھا رہا تھا

خدا کی شاید رضا ہو اس میں
اتمہارا جو فیصلہ رہا تھا 
بشکریہ  ںیرنگ خیال 

Sunday 7 July 2013

عشق



جہیڑی عشق دی کھیڈ رچائی اے
اے میری سمجھ نا آئی اے
ویکھن نوں لگد ا سادا اے
اے عشق بڑا ای ڈھڈا اے
اے ڈھڈا عشق نچا دیوے
پیراں وچ چھالے پا دیوے
عرشاں دی سیر کر دیوے
اے رب دے نال ملا دیوے
چُپ رہ کے بندہ تَر جاندا
جے بولے سولی چڑھ جاندا
جہیڑا عشق سمندر ور جاندا
او جنیدا وسدا مر جاندا
ایس عشق توں کوئی وی بچیا نئیں
پر ہر اک وچ اے رچیا نئیں
ایس عشق سے کھیڈ نرالے نئیں
فقیراں ناں ایدے پالے نئیں
اے راتاں نوں جگا دیندا
اکھیاں وچ جھریاں لا دیندا
اے ہجر دی اگ وچ ساڑ دیندا
اے بندہ اندروں مار دیندا

بشکریہ ناعمہ عزیز


Sunday 9 June 2013

غزل

کیسے کیسے خواب دیکھے، دربدر کیسے ہوئے
کیا بتائیں روز و شب اپنے بسر کیسے ہوئے

نیند کب آنکھوں میں آئی، کب ہوا ایسی چلی
سائباں کیسے اُڑے، ویراں نگر کیسے ہوئے

کیا کہیں وہ زُلفِ سرکش کس طرح ہم پر کھلی
ہم طرف دار ہوائے راہگُزر کیسے ہوئے

حادثے ہوتے ہی رہتے ہیں مگر یہ حادثے
اک ذرا سی زندگی میں، اس قدر کیسے ہوئے

ایک تھی منزل ہماری، ایک تھی راہِ سفر
چلتے چلتے تم اُدھر، اور ہم اِدھر کیسے ہوئ

خواب اُس کے ہیں جو چُرا لے جائے
نیند اُس کی ہے جو اُڑا لے جائے

زُلف اُس کی ہے جو اُسے چھولے
بات اُس کی ہے جو بنا لے جائے

تیغ اُس کی ہے شاخِ گُل اُس کی
جو اُسے کھینچتا ہوا لے جائے

یوں تو اُس پاس کیا نہیں پھر بھی
ایک درویش کی دعا لے جائے

زخم ہو تو کوئی دہائی دے
تیر ہو تو کوئی اُٹھا لے جائے

قرض ہو تو کوئی ادا کردے
ہاتھ ہو تو کوئی چُھڑا لے جائے

لَو دیے کی نگاہ میں رکھنا
جانے کس سمت راستہ لے جائے

دل میں آباد ہیں جو صدیوں سے
ان بُتوں کو کہاں خدا لے جائے

خواب ایسا کہ دیکھتے رہیے
یاد ایسی کہ حافظہ لے جائے

میں غریب الدّیار، میرا کیا
موج لے جائے یا ہَوا لے جائے

خاک ہونا ہی جب مقدّر ہے
اب جہاں بختِ نارسا لے جائے

Wednesday 5 June 2013

ڈاکٹر کمار وشواس

ڈاکٹر کمار وشواس ہندی کے شاعر ہیں'  لہذا درج ذیل نظم میں کچھ الفاظ آپ کو ہندی کے بھی ملیں گیں )

کوئی دیوانہ کہتا ہے  کوئی پاگل سمجھتا ہے
مگر دھرتی کی بے چینی  کو بس بادل سمجھتا ہے
میں تجھ سے دور کیسا ہوں  تو مجھ سے دور کیسی ہے
یہ میرا دل سمجھتا ہے  یا تیرا دل سمجھتا ہے

محبت ایک احساسوں کی پاون سی کہانی ہے
کبھی  کبیرا   دیوانہ تھا   کبھی میرا دیوانی ہے
یہاں سب لوگ کہتے ہیں  میرے آنکھوں میں پانی ہے
جو تو سمجھے تو موتی ہے   جو نہ سمجھے تو پانی ہے

بہت بکھرا    بہت ٹوٹا    تھپیرے سہہ نہیں پایا
ہواؤں کے اشاروں پر مگر میں بہہ نہیں پایا
ادھورا     ان   سنا   ہی رہ گیا  یوں پیار کا قصہ
کبھی تم سن نہیں پائی   کبھی میں کہہ نہیں پایا

سمندر پیر   کا    اندر   ہے   لیکن رو نہیں سکتا
یہ آنسو  پیار کا موتی ہے  اس کو کھو نہیں سکتا
میری چاہت کو  اپنا تو  بنا لینا مگر سن لے
جو میرا ہو نہیں سکتا   وہ تیرا  ہو نہیں سکتا

بھنور کوئی کُمُدنی پر   مچھل جائے تو ہنگامہ
ہمارے دل میں کوئی خواب   پل جائے تو ہنگامہ
ابھی تک ڈوب   کر سنتے تھے سب قصہ محبت کا
میں قصے کو حقیقت میں  بدل بیٹھا تو ہنگامہ

میں جب  بھی تیز چلتا ہوں   نظارے چھوٹ جاتے ہیں
کوئی  جب روپ گھڑتا ہوں  تو   سانچے  ٹوٹ جاتے ہیں
میں روتا ہوں تو  لوگ آ کر تھپتھپاتے ہیں
میں ہنستا   ہوں تو  مجھ   سے لوگ  اکثر روٹھ جاتے ہیں

میں اس کا ہوں     وہ اس احساس سے انکار کرتا ہے
بھری محفل  میں بھی   رسوا   '   مجھے  ہر  بار کرتا ہے
یقیں ہیں ساری دنیا  کو   خفا ہے ہم سے وہ لیکن
مجھے معلوم ہے   پھر بھی   مجھ   ہی سے پیار کرتا ہے

کوئی  خاموش ہے  اتنا   بہانے بھول آیا ہوں
کسی کی اک ترنم میں   ترانے بھول آیا ہوں
میری  اب راہ مت تکنا کبھی اے آسماں والو
میں اک چڑیا  کی آنکھوں میں   اڑانیں بھول آیا ہوں

یہ دل برباد کرکے اس میں کیوں آباد   رہتے ہو
کوئی کل کہہ رہا تھا تم    الہ آباد   رہتے ہو
یہ   کیسی   شہرتیں مجھ کو عطا   کر دیں میرے مولا
میں سب کچھ بھول جاتا ہوں  مگر تم یاد رہتے ہو

پناہوں میں جو آیا ہو  تو اس پر وار کیا کرنا
جو دل ہارا ہوا ہو  اس پہ   پھر    ا دیھکار  کیا کرنا
محبت   کا مزہ تو  ڈوبنے کی کشمکش میں ہے
جو ہو معلوم   گہرائی تو  دریا پار کیا کرنا

نظر میں شوخیاں  لب پر   محبت کا ترانہ ہے
میری امید کی ذد میں   ابھی سارا زمانہ ہے
کئی جیتے ہیں  دل کے دیش  پر معلوم ہے مجھ کو
سکندر ہوں  مجھے ایک  روز کھالی ہاتھ جانا ہے

جب  آتا ہے  جیون  میں خیالاتوں کا  ہنگامہ
یہ  جذباتوں   ملاقاتوں  '  حسیں  راتوں  کا ہنگامہ
جوانی کی قیامت   دور میں یہ سوچتے ہیں سب
یہ ہنگاموں کی راتیں ہیں   یا ہے راتوں کا ہنگامہ

بتا ؤں   کیا مجھے  ایسے' سہاروں نے ستا یا ہے
ندی تو کچھ نہیں بولی'   کناروں نے ستا یا ہے
سدا ہی   شُول     میری   راہ سے' خود ہٹ گئے لیکن
مجھے تو ہر گھڑی ' ہر پل ' نظاروں نے ستایا ہے

تمہارے پاس ہوں لیکن '  جو دوری ہے سمجھتا ہوں
تمہارے بن میری ہستی ' ادھوری ہے سمجھتا ہوں
تمہیں میں بھول جاؤں گا ' یہ ممکن ہے نہیں لیکن
تم ہی کو بھولنا سب سے ' ضروری ہے سمجھتا  ہوں

کبھی کوئی جو کھل کر  ہنس لیا ' دو پل تو ہنگامہ
کوئی خوابوں  میں آ کر  بس لیا ' دو پل تو ہنگامہ
میں اس سے دور  تھا تو   شور تھا سازش ہے ' سازش ہے
اسے بانہوں میں کھل کر کس لیا   دو   پل تو ہنگامہ

ہمیں دل میں بسا کر اپنے گھر جائیں تو اچھا ہے
ہماری بات سن لیں  اور  ٹھر جائیں تو اچھا ہے
یہ ساری شام  جب  نظروں  ہی نظروں میں بِتا دی ہے
تو کچھ پل اور آنکھوں میں ' گزر  جائیں تو اچھا ہے

ہمارے شعر سن کر بھی ' جو خاموش اتنا ہے
خدا  جانے  غُرورِ حسن میں' مدہوش کتنا ہے
کسی پیالے نے پوچھا ہے ' صراحی سے سبب مے کا
جو خود بے ہوش ہو ، وہ کیا    بتائے ہوش کتنا ہے

سدا   تو دھوپ کے ہاتھوں  میں ہی  پرچم نہیں ہوتا
خوشی کے گھر میں بھی بولو' کبھی کیا غم نہیں ہوتا
فقط  ایک آدمی کے واسطے '  جگ چھوڑنے والو
فقط ایک آدمی سے یہ زمانہ   کم نہیں ہوتا

ہر   اک دریا کے ہونٹوں پر'  سمندر کا ترانہ ہے
یہاں ہر فرد کے  آ گے'  سدا   کوئی بہانہ ہے
وہی   باتیں   پرانی ہے '   وہی قصہ  پرانا ہے
تمہارے  اور میرے  بیچ  میں پھر سے زمانہ ہے

کہیں   پر   جگ   لئے  تم بن '   کہیں  پر سو لئے تم بن
بھری محفل  میں بھی اکثر '  اکیلے  ہو لئے تم  بن
یہ   پچھلے  کچھ سالوں  کی ' کمائی  ساتھ ہے اپنے
کبھی تو ہنس   لئے   تم   بن'  کبھی  پھر  رو   لئے  تم بن

Sunday 26 May 2013

گدھا

گدھا اچھا بھلا عزت دار جانور تھا سامان ڈھوتا تھا، سواری کے کام آتا تھا، جنگوں تک میں حصہ لیا کرتا تھا کہ پنجابی زبان ایجاد ہو گئی اور گدھا "کھوتا" قرار پایا۔بات یہاں تک رہتی تو ٹھیک تھا لیکن سرائیکی نے تو حد ہی کردی۔کھوتے کو "گڈھیں" بنا دیا۔کبھی کسی سرائیکی بولنے والے سے گڈھیں سن کر دیکھیں، بندہ پانی پانی ہوجاتا ہے۔ گڈھیں سن کر گدھا بھی کہتا ہوگا اس ذلت سے تو اچھا تھا میں انسان ہو گیا ہوتا خواہ پاکستان میں ہی کیوں نہ پیدا ہوتا۔

جیسے ہم نےگوروں کے پروفیسر الو کو کالے جادو اور الو کا پٹھہ بلانے کے لیے مخصوص کر رکھا ہے ایسے ہی گدھا ہم نے دوسروں کی بے عزتی کرنے واسطے رکھ چھوڑا ہے۔ہاں کبھی کبھار کوئی گدھےکا مالک اس پر ڈنڈے برسانے کا کام بھی لے لیتا ہے۔

یورپ میں جتنی چار ٹانگوں والے گدھوں کی عزت ہے اتنی ہی دوٹانگوں والے گدھوں کی بھی خاص مانگ ہے اور گوریاں تو ان کو دیکھتے ہی دل دے بیٹھتی ہیں۔ گوروں کو گدھوں سے کتنی انسیت ہے اس کی سب سے بڑی مثال امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کا انتخابی نشان ہے۔ اب سوچیں ہمارے ہاں کسی پارٹی کا انتخابی نشان شیر یا تیر کی بجائے گدھا ہو جائے تو کیا ہو؟ اسکی ایک اور مثال وہ تمام حکمران ہیں جن کو امریکی بھاگ بھاگ کر اپنی گودوں میں بٹھاتے ہیں۔گوریاں بھی گدھوں کی محبت میں پیچھے نہیں ہیں بلکہ شادی کے لیے ان کو صرف اور صرف گدھے ہی چاہئیں۔ہماری طرف لڑکیوں کا زور نہیں چلتا لیکن چاہتی وہ بھی ایسا دلہا ہیں جو ایک بوجھ ڈھونے والا گدھا ہو اور ان سے پارٹ ٹائم کے طور پر شادی کرسکے۔ ہمارے ہاں ابھی بھی اکثر رشتے والدین تلاش کرتے ہیں لہٰذا ان کا در پردہ مقصدِ تلاش اپنی بیٹیوں کے لیے دو ٹانگوں والا گدھا ہوتا ہے اور ان کی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف بیوی کا گدھا ہو بلکہ پارٹ ٹائم میں سسرال والوں کو بھی خدمات پیش کر سکے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ ہمارے یہاں اکثر گدھے شادی کے بعد خود ساختہ مردانگی کی اَنا کے غبارے میں ہوا بھر کر دولتیاں جھاڑنے لگتے ہیں۔ لیکن کچھ کچھ قسمت والیوں کو ایسے گدھے بھی ملتے ہیں جو چار ٹانگوں والے گدھے سے بدرجہا بہتر ہوتے ہیں۔

 یوں تو شادی کے بعد ہر لڑکا سمجھتا ہے کہ اس کو گدھا بنایا گیا ہے جب کہ گدھا تو وہ پہلے ہی ہوتا ہے، فرق یہ ہے کہ پہلے وہ اپنی مرضی سےگدھا بنتا ہے پھر اس کو مجبوراً بننا پڑتا ہے۔ ہر مرد زندگی میں دو بار گدھا بنتا ہے۔ ایک بار جب اسے کسی سے محبت ہوتی ہے اور دوسری بار جب وہ کسی سے شادی کرتا ہے۔ لیکن اسے احساس بعد میں ہوتا ہے اور کچھ کو تو احساس بھی نہیں ہوتا اور وہ ہنسی خوشی ایک ہی جنم میں آواگان نظریہ بنے انسان اور گدھے کا کردار اکٹھے ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ ویسے آج کل ہمارے پردیسی بھائی بھی اپنے آپ کو گدھا سمجھے جانے کی شکایت کرتے نظر آ رہے ہیں، لیکن ہماری نظر میں ان سے زیادہ وہ گدھے ہیں جو پردیسی بننے کے امیدوار ہیں۔ لیکن یہاں بات گوروں اور گدھوں کے تعلق کی ہے تو ہم یہ بات کسی اور وقت کے لیے ادھار رکھ چھوڑتے ہیں۔

 اشتوت گارٹ (جرمنی)کے چڑیا گھر میں چمکتے بھورے رنگ اور درمیانی قامت کا جانور دیکھ کر ٹھٹک گیا۔ سوچنے کے باوجود جب سمجھ نہ آیا کہ یہ کون سا جانور ہے تو نزدیک جا کر جنگلے پر لگا نام پڑھا، پتا لگا کہ موصوف گدھے ہیں۔ ہمیں اس کی قسمت اور عیاشیوں پر رشک آیا اور تمام پاکستانیوں سے جو ڈونکی لگا کر یورپ میں آنے کے خواہشمند ہیں یا" اِن پراسس" ہیں سے تمام گلہ مٹ گیا کہ جہاں عزت ہے وہیں جا کر رہنا ہی پسند کریں گے ناں۔ اس سے قبل وہ ہمیں پہچان کر ہمارا تمسخر اڑا پاتا ہم رش کا فائدہ اٹھا کر پچھلے قدموں ہی وہاں سے رفو چکر ہو گئے۔ ہم گاؤں میں رہتے ہیں اور ہمیں گدھوں پر بیتنے والی تمام وارداتوں کا بخوبی علم ہے لہٰذا ہم نے وہاں سے فرار میں ہی نجات سمجھی کہ کسی اور کو پتہ لگ گیا تو گدھے والے جنگلے کی بجائے لوگوں نے ہمیں دیکھ کر کہنا تھا ’’ہونہہ.... گدھا کہیں کا۔‘‘

 پھر وارسا (پولینڈ)کے چڑیا گھر میں گوریوں کو گدھے کی گردن میں بانہیں ڈال کر فوٹو کھینچواتے یقین آگیا کہ مشرقی یورپ کی گوریاں چار ٹانگوں والے بھورے گدھوں پر جان چھڑکتی ہیں، دوٹانگوں والے کی تو بات ہی کیا ہے۔ ویسے پولینڈ میں ہمیں گوریاں جن نظروں سے دیکھتی تھیں ان سے ہمیں بھی گمان گزرتا تھا شاید وہ ہم کو بھی گدھا سمجھتی ہیں اور گدھا بھی وہ جس کی قربانی جائز ہو۔

اب کیا کیا جائے کہ یورپیوں کو گدھے اتنی وافر مقدار میں میسر نہیں جتنی ہم پر خدا کی رحمت ہے۔ جیسے گرم علاقوں والے برف باری کے شوقین ہوتے ہیں اور برف کے رہنے والے سورج کی ایک جھلک کو جان دیتے ہیں لہٰذا گدھوں کی کمی نے گوروں کو گدھوں کی محبت میں مبتلا کر ڈالا ہے۔ وہ چاہے دو ٹانگوں والا گدھا ہو یا چار ٹانگوں والا گدھا تو گدھا ہوتا ہے۔ گورے کسی کو غصے میں کیا، مذاق میں گدھا نہیں کہتے کہ ان پر گدھے کی اہمیت مسلم ہے۔ امریکہ میں لڑکیاں پیپر میرج paper marriage کرلیتی ہیں لیکن یورپ میں (برطانیہ کو نکال کر) پیپر میرج کا کوئی وجود نہیں کہ گدھا خود چل کر آپ کے پاس آئے اور آپ صرف کاغذات میں اس کے مالک بنیں؟ ہمارے سامنے ہمارے کئی ہم وطن اور ہمارے وطن مالوف کے ہمسائے میں رہنے والے یہاں گوریوں سے شادیوں کے بندھن میں بندھ چکے ہیں۔

بھائیو! ہم سب وہ گدھے ہیں جن کو صرف چارے سے مطلب ہے۔ خواہ کوئی بھی حاکم ہو اور ہم پر کچھ بھی لاد دے، ہمارااحتجاج ڈھینچوں ڈھینچوں تک ہی محدود ہے اور وہ بھی تب تک جب تک ہم کو چارے کی جھلک نہ نظر آ جائے۔ چارہ نظر آیا نہیں اور اصول کی ڈھینچوں ڈھینچوں ہم نے بند کی نہیں۔ اب گوریوں اور گوروں کو گدھے پسند ہیں تو وہ ہمیں کیوں پسند نہ کریں۔

Sunday 19 May 2013

پہلی صف



اکبر خان جتوئی جدی پشتی زمیندار تھا اور اس کی حویلی کی تعمیر ایک بیگھے رقبے پر اس کے دادے نے بڑی باڑھ کے بعد دوبارہ کی تھی۔ اس حویلی کے ساتھ ہی اس کے کئی باڑے اور ایک ڈیرہ جس پر ہر وقت اس کے مزارعوں اور باڑے کے ماجھیوں کا تانتا لگا رہتا تھا۔ اللہ کا دیا سب کچھ تھا۔تین بیویاں ، دو جوان جہاں بیٹے جو زیادہ تر شہر میں رہتے، کئی گھیر زمین کی جاگیر اور اس میں کئی ایکڑ آموں کے باغ اور سال میں ایک اناج اور دوسری صاف منافعے کی فصل بوئی جاتی تھی۔ سب کچھ تھا مگر اس کے باوجود  اکبر خان کی بس دو کمزوریاں تھیں۔ ایک تو ضرورت سے زیادہ زمین ہونے کے باوجود وہ مزید سمیٹنے سے خود کو باز  نہیں رکھ سکتا تھا اور دوسرا حویلی کی زنان خانے میں تین بیویوں کے باوجود بھی وہ ڈیرے پر عورتیں لائے بغیر گزارہ نہیں کر سکتا تھا۔ ہر سال وہ کچھ نہ کچھ زمین یا تو کسی مجبور سے خرید لیتا نہیں تو ہتھیانے تک کے لیے اس کے کاردار موجود تھے جن میں اکثر چھٹے ہوئے مفرور تھے۔ دوسری ہوس کے لیے  اکثر تو ناچنے والی کنجریاں بلا لاتا ورنہ مزارعوں کی عورتیں تو کھونٹی پر بندھی گائیوں کی طرح ہر وقت ہی اس کی خدمت واسطے موجود تھیں، یہاں بھی جو مرضی سے آ جاتی تو ستے خیراں نہیں تو کاردار خان کی پگڑی لے کر جاتے اور رات کے نکاح میں باندھ کر لے آتے۔
جو بھی تھا، ان دو قباحتوں کے علاوہ اکبر خان بھلا آدمی تھا۔ پانچ وقتی جماعت کا نمازی اور  مسجد کا خادم۔ سارا خرچہ خود تن تنہا اٹھاتا، مولوی کا ماہانہ وظیفہ یاد سے اس کی کوٹھڑی میں بھجوا دیتا اور مسجد میں خدا کے مسافروں کے لیےدو وقت کھانا بھی اکبر خان کی حویلی سے ہی پک کر بلاناغہ آیا کرتا تھا۔ پھر عرس کے عرس، زیارت پر کئی ہزار روپوں مالیت کا گھی مکھن اور نذرانہ علیحدہ سے پہنچاتا  کہ اس کی فصل، حویلی اور ڈیرے میں مرشدوں کی برکت اور خدا کا سایہ قائم رہے۔  مسجد میں بس اسے ایک خبط تھا کہ ہمیشہ پہلی صف میں عین ملا کے پیچھے نماز  پڑھتا اور مجال ہے کہ اس کی جگہ پر کوئی اورنمازی قدم رکھنے کی بھی جرات کر سکتا ہو۔ لوگ اس کے منہ پر تو کچھ نہ کہتے تھے مگر اکثر نائی موچی باہر نہر کے کنارے آباد بازار میں اکٹھے بیٹھتے تو دبے دبے اکبر خان  کی اس عادت کو برا جانتے۔ جیسے، نورا حجام ایک دن  ریتی پر استرا تیز کرتے ہوئے  سامنے بیٹھے شکو موچی  سے کہنے لگا کہ،
 'تجھے پتہ مسیت میں اکبر خان نے مصلیٰ تک اپنے لیے علیحدہ سے لگوا لیا ہے۔ آگے مولوی کا مصلیٰ ہوتا ہے اور ایک سجدہ چھوڑ کر اس کا مصلیٰ ہے۔ کاردار نے بتایا کہ خان نے یہ مصلیٰ خصوصاً مدینے سے منگوایا ہے"۔
 شکو موچی جو بے دھیانی سے اس کی بات سنتے ہوئے گھسے جوتوں میں سوئے تار رہا تھا، مدینے کا زکر سن کر ایک دم مودب ہو گیا ۔ دونوں انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر دبائے اور کہنے لگا، "مولا برکت ڈالے۔ خدا جانتا ہے بستی میں اس کی وجہ سے مسجدمیں سب کو سہولت ہوتی ہے۔ پانی سارے پہر ٹونٹیوں تک میں آتا ہے اور  پھر مسافروں کے لیے اس نے جو بندوبست کر رکھا ہے، اللہ مولا کی سنت ہے۔"
اس پر نورے نے برا سا منہ بنا کر مسافروں کی آل اولاد میں حرام نطفہ گھسیڑا اور بولا،
 " شکو، حرام پنا نہ کر۔ خان کی خود کی حالت یہ ہے کہ رات عورتوں کی گود اور فجر مولوی کے پیچھے گزرتی ہے۔ اللہ مجھے معاف کرے، میں نے تو فجر سے توبہ کر لی۔ سویر وہ نام تو خدا کا پڑھ رہا ہوتا ہے مگر منہ کپی کی باس مارتا رہتا ہے۔ جماعت حرام  ہو توایسی مکروہ  نماز کا فائدہ؟" اس پر شکو نے بھی استغفار پڑھی اور گویا ہوا کہ،
"باقی تو سب ٹھیک ہے، بس اس کی یہ عورتوں والی بد عادت چلی جائے تو بندہ ہیرا  ہے، ہیرا۔" اب کے شفیے درزی نے شلوار کے نیفے کا عرض سلائی مشین میں فٹ کیا اور ہتھ دستی سے کھٹ کھٹ کرتے لقمہ دیا کہ،
 "بات یہ ہے بھائیو کہ اکبر خان مسجد میں نماز پڑھ کر خدا کو راضی رکھتا ہے، مگر پہلی صف میں کھڑے ہونے کی عادت اس کے دادے والی ہے۔ میرا ابا کہا کرتا تھا کہ جتوئیوں کو خدا کی زمین تو عطا ہوئی ہی ہے مگر وہ مسیت کے بھی زمہ دار ہیں۔ کہو تووہ مسیت میں بھی خدا کے شریکے ہیں"۔  ان لوگوں کی یہ  بحث  ہمیشہ کی طرح تب بند ہوئی جب اکبر خان کا منشی طوفا وہاں آ کر بیٹھ گیا اور حقہ سلگا کر تاشوں کی بازیاں چلنے لگیں۔ شکو، نورےاور شفیے نے اپنا دھندہ ویسا چھوڑ  کر دن بھر کی کمائی تھڑے پر جوئے میں جھونک دی۔
شام میں اکبر خان باہر ہوا خوری کو نکلا کرتا تھا۔ اس روز بھی  جب وہ بازار میں نکلا تو منشی بازی آدھی چھوڑ کر اس کے پیچھے دوڑا تو شکو نے منہ نیچے کر کے پاس بیٹھے شفیے کی ران دبا کر کہا کہ، "لے بھئی شفیے،طافو دلال  خان کے لیے رات کا  انتظام پوچھنے گیا ہے۔" اور شکو جو ان دونوں کو سن رہا تھا طافو کو واپس آتا دیکھ کر بولا، "رب جانے کس مزارعے کی فصل  میں یہ حرامی کھوٹ نکالے گا۔" اور طافو نے جیسے شکو کی یہ بات سن لی ہو، انجان بن کر چلتے چلتے  رقم سمیٹتے بولا،
 "آج کی بازی تو سجنو میں لے  ہی گیا، اب دیکھو کس دن خان کا باز تم حرامزادوں کی چڑیوں پر نظر ڈالتا ہے۔" اس کی موجودگی میں تو کسی کو ہمت نہ ہوئی، اس کے جانے کے بعد سب نے خان اور اس کے دلال کی  زبانی کلامی خبر لی۔
منشی  طافو کا کام دلال جیسا تھا۔ وہ اکبر خان کے لیے مزارعوں کی عورتیں ڈھویا کرتا تھا۔ اس کے پاس سب کا حساب تھا اور جس مزارعے کی کوئی عورت تارنے والی ہوتی تو اس کے حساب میں ردبدل بھی ہو جاتا تھا۔ اکثر تو اس کی ضرورت بھی پیش نہ آتی تھی اور اس دن بھی شام جب وہ گجو کی بیٹی کو گائے کی طرح اپنے ساتھ ہانک کر  ڈیرے پر پہنچا تو شام پڑنے والی تھی ۔ اکبر خان کچھ افسردہ سا باہر  کھلے میں چارپائی پر لیٹا تھا ۔ گجوکی بیٹی کو وہ اندر چھوڑ کر خان کے پاس آیا تو اکبر خان نے اسے منع کر دیا۔ طافو حیرانگی سے اسے تکنے لگا کہ ماجرا کیا ہے۔ اکبر خان نے اٹھ کر حقے کا پائپ چارپائی کی پائنتی میں پھنسایا اور بولا،
"جگو سپیرا سنابستی میں واپس آ گیا ہے؟" اس پر طافو نے بتایا کہ وہ دو تین دن ہوئے اپنے کڈے کے ساتھ واپس آ گیا ہے اور اس بارکہتا ہے کہ اچھے خاصے رنگ برنگے چھوٹے بڑے کئی سانپ پکڑلایا ہے۔ اسی وجہ سے بستی میں اچھی خاصی رونق لگی ہوئی ہے۔ اکبر خان نے ان سنی کر کے پوچھا
"نوری بھی آئی ہے؟"
 گو طافومعاملہ تو پہلے ہی سمجھ گیا تھا بس اکبر خان کے منہ سے سننا چاہتا تھا۔
نوری جگو سپیرے کی سب سے بڑی لڑکی تھی۔  بس پچھلے سال ہی اس کی جوانی نکلی تھی۔ سانولی اور بھرے گالوں والی۔ لانبی زلفیں گُت بنا کر یہاں وہاں گھماتے پھرتی۔ نکلتا قد اور ابھرا سینہ خم کھاتی کمر میں اور بھی بھلا نظر آتا۔ باپ کے ساتھ سانپوں کا تماشہ کرنے نکلتی تو لوگوں کی نظریں اس کو ٹٹولتیں، سنپولیوں جیسی ہر جسمانی خم دار ادا  مسحور کن سی سب کو محو کر دیتی،یہاں تک کہ جگو سپیرے کو لاٹھی زمین پر مار مارلوگوں کو  سانپوں کی طرف متوجہ  کرنا پڑتا۔ الغرض، جس کو دیکھو سانپوں کے بہانے نوری کو دیکھنے نکلا کرتا تھا اور پھر کئی سو روپے بے سود پھکیوں پر خرچ کر کے اٹھتا اور  کہو تو سمجھتا ،منافعے میں رہا۔ اکبر خان نے جب سے نوری کا  یہ نظارہ کیا تھا ،باؤلے کتے جیسے ہر وقت اس کی مشک مارتا رہتا تھا۔ اس رات بھی گجو کی بیٹی جب اس کے بستر میں گھسی تو خان کا دھیان دور بستی میں نوری کی طرف بٹا ہوا تھا، سویر واپس جاتے ہوئے گجو کی بیٹی  شرمندہ سی روانہ ہوئی ۔اگلے روز تو جیسے آپے سے باہر ہو گیا۔ تین نمازیں وہ مسجد نہ جا سکا، اور صف میں اس کی جگہ پر کسی دوسرے کو کھڑے ہونے کی ہمت نہ ہوئی۔ اس کا مصلیٰ ویسا ہی خالی چھوڑ کر نمازیں ادا کرنی پڑیں اور اس شام نورے حجام کا گلہ یہ تھا کہ تین نمازیں صف میں خالی مصلےٰ کی وجہ سے مکروہ ہو گئیں۔ خان بدبخت، مسیت جائے یا نہیں، نمازیں سب کی مکروہ ہو جاتی ہیں۔
طافو منشی آج تیسرا دن تھا کہ نوری کے پیچھے پیچھے کتے کی طرح سونگھ لے رہا تھا مگر یہ تھی کہ اس کے ہاتھ نہ آتی۔ پل کو جھگی سے نکلی اور پھر گھس رہی۔ پچھلی شام سانپوں کا تماشہ بھی نہیں ہوا تھا تو طافو کی مشکل اور بھی بڑھ گئی۔ تبھی اس کو جب اکبر خان نے خوب لعن طعن کیا تو اس نے نوری کے باپ جگو سپیرے سے بات کرنے کی سوچ لی۔ اس کی جھگی میں جا کر اسے  نوری کے لیے خان کا پیغام پہنچایا جس پر جگو کی باچھیں کھلی رہ گئیں۔ پہلے تو اس نے پس و پیش سے کام لیا اور پھر جب طافو نے ہلکے سے اسے خمیازے کا اندازہ کروایا تو منت ترلے پر آ گیا، منمنا کر ہاتھ جوڑے اور جیسے باور کرایا، "مائی باپ، ہم سپیرے آزاد ہوتے ہیں اور عورت زات تو ویسے بھی اپنے من کی غلام ہوتی ہے، اس کو کوئی قابو کر پایا ہو؟ نوری میرا مال ہے مگر اس کا فیصلہ وہی دیوے گی" طافو سمجھ گیا کہ یہ بات اس نے ٹالنے کو کہی تھی ورنہ عورت زات کی ایسی کہاں جرات جو انکار کر پاتی۔ وہ تو  کلے سے لگی گائے ہے جسے سبزے کی لالچ دو اور اسے ساتھ ہنکائے چلے جانا چاہیے۔ پھر مزارعوں کی طرح گو جگو سپیرا خان کا محتاج نہیں تھا مگر پھر بھی خان بہرحال خان تھا، اس چپے زمین کا مائی باپ تھا جہاں سے جگو سپیرا نہ صرف سانپ پکڑا کرتا تھا اور پھر وہیں ان سانپوں کے بل پر اپنے کڈے کا پیٹ بھرتا تھا۔ بالواسطہ، جگو سپیرا اکبر خان کا دیا نمک ہی کھا رہا تھا۔ طافو نے اس کو مہلت دی اور جب واپس تھڑے پر پہنچا تو تینوں کمی خان کی نوری واسطے رسے تڑوانے کی بحث لیے ہی بیٹھے تھے ۔ ان کو یہ تو معلوم تھا کہ نوری آج نہیں تو کل خان کی کھونٹی سے بندھ ہی جائے گی، دیکھنا یہ تھا کہ یہ ناگن کس منتر سے کیل جائے گی۔
چوتھے دن ہی اکبر خان کا پیمانہ لبریز ہو گیا جب نوری نے ٹکا انکار کر دیا۔ کاردار کو کہلوا کر  نوری کو جھگی سے اٹھوا لایا اور پہلے تو اسے سمجھایا اور یقین دلایا مگر یہ تھی کہ جیسے ناگن پھنکارتی اس کو قریب نہ لگنے دیتی تھی، خان نے جب خود اس سے بات کی تو تڑک کر بولی
 "مر جاوں گی مگر حرام سے خود کو پلید نہیں ہونے دوں  گی"۔
 اس پر اکبر خان نے سر شام ہی مولوی کو بلا کر نکاح پڑھوا نا چاہا تو نوری اور بھی  بدک گئی۔کسی طور بھی نہ مانی تو  اکبرخان کی مردانگی نے جوش مارا اور مولوی کو رخصت کر خود اس کے پاس ڈیرے میں جا گھسا۔ پہلے تو اس سے نرمی برتی مگر جب یہ بالکل بھی ہتھے نہ لگتی تھی تبھی اس نے زبردستی اس کو بھینچ لیا۔ چادر کھینچی تو اس میں سے ایک میلی کچیلی پوٹلی تھپ سے زمین پر جا گری جس کا منہ کھلا ہوا تھا ۔اکبر خان جو نوری کو قابو کرنے میں اتنا مگن تھا بالکل بھی دھیان نہ گیا اور پوٹلی میں سے سنہرے رنگ کاناجی، مشکی ناگ پھنکارتا ہوا نکلا ۔ سنسناتی پھنکار سنتے ہی اکبرخان کی ساری مردانگی ہوا ہو گئی اور وہ نوری کو ویسا  چھوڑ کر ابھی مشکی کی طرف مڑا ہی تھا کہ اس کے دونوں دانت اکبرخان کی ٹانگ میں گڑ گئے۔ اکبرخان کی ایک چیخ بلند ہوئی اور نوری نیم عریاں دوڑتی ہوئی باہر نکل گئی ۔ طافو اور کاردار دوڑے ہوئے اندر پہنچے تو اکبر خان کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی۔ دو نالی کے ایک فائر سے کاردار نے مشکی کا کام تمام کیا تو یہاں اکبر خان نے آخری ہچکی لی۔
سویر تک اکبر خان کے دونوں بیٹے پہنچ گئے اور قبر کھود لی گئی۔اکبر خان کا جنازہ اٹھایا گیا تھا تو منہ کالا سیاہ ہو رہا تھا۔ جنازہ گاہ میں مولوی نے پہلے تو اکبر خان کی بڑائی بیان کی اور خدا کے گھر اور سینکڑوں مزارعوں کے گھروں  واسطے اس کی خدمات پر سیر حاصل تبصرہ کیا۔ اس کے بعدلوگوں کو مخاطب کر کے موت کی حقیقت پر  توجہ مبذول کروائی اور پہلی تکبیرکہنے سے پہلے،  ہدایات کچھ یوں گوش گزار کیں،
"اے لوگو، صفیں درست رکھو، ٹخنے سے ٹخنہ اور کندھے سے کندھا ملا لو۔اگر زمین پاک ہے تو جوتے اتار لو ورنہ پہنے رہنے میں کوئی حرج نہیں۔ صفوں کے درمیاں جگہ خالی نہ چھوڑو ورنہ شیطان وہ جگہ پر کر لیا کرتا ہے"
مولوی کا اتنا کہنا تھا کہ سب کی نگاہیں پہلی صف پر جا کر ٹک گئیں جہاں مولوی کے پیچھے ایک جگہ خالی تھی ۔ اس جگہ پر ہمیشہ اکبر خان کو کھڑے رہنے کا خبط رہا کرتا تھا اور اسے پر کرنے کی ابھی تک کسی کو ہمت نہ تھی۔
-افسانہ-

Wednesday 15 May 2013

دانا


ایک شادی شدہ نے کہا : عورت تو پاؤں کی جوتی ہوا کرتی ہے، مرد کو جب بھی اپنے لئے کوئی مناسب سائز کی نظر آئے بدل لیا کرے۔ سننے والوں نے محفل میں بیٹھے ہوئے ایک دانا کی طرف دیکھا اور پوچھا: اس شخص کی کہی ہوئی اس بات کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ اس نے جواب دیا: جو کچھ اس شخص نے کہا ہے بالکل صحیح کہا ہے۔ عورت جوتی کی مانند ہے ہر اس شخص کے لئے جو اپنے آپ کو پاؤں کی مانند سمجھتا ہے۔ جبکہ عورت ایک تاج کی مانند بھی ہو سکتی ہے مگر اس شخص کے لئے جو اپنے آپ کو بادشاہ کی مانند سمجھتا ہو۔
کسی آدمی کو اس کی کہی ہوئی بات کی وجہ سے کوئی الزام نا دو، بس اتنا دیکھ لو کہ وہ اپنے آپ کو اپنی نظروں میں کیسا دیکھ رہا ہوتا ہے۔

Friday 19 April 2013

میری زندگی تو فراق ہے، وہ ازل سے دل میں مکیں سہی




میری زندگی تو فراق ہے، وہ ازل سے دل میں مکیں سہی
وہ نگاہِ شوق سے دور ہیں، رگِ جاں سے لاکھ قریں سہی



ہمیں جان دینی ہے ایک دن، وہ کسی طرح ہو کہیں سہی
ہمیں آپ کھینچئے دار پر، جو نہیں کوئی تو ہم ہی سہی



سرِ طور ہو سرِ حشر ہو، ہمیں انتظار قبول ہے
وہ کبھی ملیں، وہ کہیں ملیں، وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی



نہ ہو ان پہ میرا جو بس نہیں، کہ یہ عاشقی ہے ہوس نہیں
میں انھی کا تھا میں انھی کا ہوں،وہ میرے نہیں تو نہیں سہی



مجھے بیٹھنے کی جگہ ملے، میری آرزو کا بھرم رہے
تیری انجمن میں اگر نہیں، تیری انجمن سے قریں سہی



تیرا در تو ہمکو نہ مل سکا، تیری رہگزر کی زمیں سہی
ہمیں سجدہ کرنے سے کام ہے، جو وہاں نہیں تو یہیں سہی



میری زندگی کا نصیب ہے، نہیں دور مجھ سے قریب ہے
مجھے اسکا غم تو نصیب ہے، وہ اگر نہیں تو نہیں سہی



جو ہو فیصلہ وہ سنائیے، اسے حشر پہ نہ اٹھایئے
جو کریں گے آپ ستم وہاں وہ ابھی سہی، وہ یہیں سہی



اسے دیکھنے کی جو لو لگی، تو نصیر دیکھ ہی لیں گے ہم
وہ ہزار آنکھ سے دور ہو، وہ ہزار پردہ نشیں سہی

Monday 8 April 2013

Jab skardu main farishtay utray


ابابیلوں نے آنا چھوڑ دیا ہے لیکن فرشتوں کا اُترنا ابھی جاری ہے۔ یہ کہانی انہی کی ہے۔ اسکردو سے بھی اور آگے ایک گاؤں ہے: کورفے۔ یہ پاکستان کا شاید آخری گاؤں ہے۔ اس سے آگے کوہ قراقرم اور کے ٹو کی چوٹی ہے۔ ان پہاڑوں پر چڑھنے کیلئے دنیا بھر کے کوہ پیما اسی علاقے سے گزرتے ہیں۔ وہ ذرا سا گاؤں کورفے اب دنیا کے نقشے پر نظر آنے لگا ہے۔ یہاں اس کا قصّہ سنانا ضروری ہے۔یہ بات اب پرانی ہوئی۔ ایک امریکی کوہ پیما گریگ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کوہ قراقرم پر گیا۔ واپسی میں ان کی ٹیم منتشر ہوگئی اورگریگ اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گیا۔ بہرحال وہ مرتا کھپتا پہاڑ سے نیچے اترا اور راہ میں اسے جو پہلا گاؤں ملا وہ کورفے تھا۔ گاؤں کے بلتی باشندوں نے تباہ حال کوہ پیما کی تیمار داری اور خاطر داری بھی کی۔ جب گریگ کی صحت بحال ہوئی اور وہ گاؤں کو دیکھنے نکلا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ گاؤں میں کوئی اسکول نہیں، بچّے کھلے آسمان کے نیچے بیٹھ کر پڑھتے ہیں۔ ان کے پاس نہ کاغذ ہیں نہ کتابیں اور وہ سوکھی لکڑی سے مٹّی میں حروف اور ہندسے بنا رہے ہیں۔ گریگ نے گاؤں والوں کا احسان چکانے کے لئے ایک وعدہ کیا۔ اس نے کہا کہ وہ امریکہ جاکر کچھ رقم جمع کرے گا اور واپس آکر کورفے کے بچّوں کے لئے اسکول بنائے گا۔
گریگ نے امریکہ جاکر لیکچر دینے شروع کئے اور لوگوں کو بتایا کہ دنیا میں ایک اسکول ایسا بھی ہے جہاں بچّے خاک پر پڑھتے ہیں اور خاک ہی پر لکھتے ہیں۔ اس پر لوگ عطیات دینے لگے، ایک بڑے مالدار اور بوڑھے شخص نے کہا کہ یہ لو رقم اور کورفے کے بچّوں کے لئے اسکول تعمیر کرو۔ بس یہ ہے کہ جب اسکول بن جائے تو اس کی تصویر لاکر میرے کمرے میں لگا دینا تاکہ میں ہر ایک کو دکھا سکوں کہ دیکھو یہ میرا اسکول ہے۔
دیکھتے دیکھتے خواب حقیقت بننے لگے۔ قراقرم کی تاریخ میں پہلی بار ایک اسکول کی عمارت کھڑی ہوئی، کلاسیں بن گئیں، فرنیچر لگ گیا، استاد آگئے اور پہاڑوں کے سنّاٹے میں پہلی بار روز صبح اسکول کا گھنٹہ بجنے لگا۔ وقفے میں کھیلتے ہوئے بچّوں کے وہ چھوٹے چھوٹے قہقہے گونجنے لگے اور علاقے کی تقدیر بدلنے لگی۔
اس کے بعد قصہ طویل لیکن تاریخی ہے۔ گریگ نے شمالی پاکستان سے افغانستان کے اندرونی علاقوں تک بچوں کے اسکول بنانے کی تحریک شروع کی اور اس کے لئے سینٹرل ایشیاء انسٹیٹیوٹ یا سی اے آئی نام کی ایک تنظیم قائم کی۔ اِس وقت گلگت بلتستان سے لے کر واخان تک کتنے ہی جدید اسکول بن گئے ہیں جن میں نہایت صاف ستھرے، شگفتہ اور شائستہ بچّے، خصوصاً بچّیاں تعلیم پا رہے ہیں۔ گریگ کا خیال ہے کہ لڑکیوں کو پڑھانا ضروری ہے تاکہ تعلیم کا سلسلہ نسل در نسل آگے بڑھے۔
یہ تو ہوا آج کی کہانی کا ایک رخ۔ اب اس داستان کا بالکل تازہ باب لکھتا ہوں۔ یہ کورفے کی چھ سال کی بچّی سکینہ کی کہانی ہے جس کی بلتی ماں کا نام چوچو اور باپ کے نام ابراہیم ہے۔ سکینہ اپنے گاؤں کے بچوں کی طرح کھیلتی کودتی نہیں تھی۔ اس کا بستر سے اٹھنا محال تھا کیونکہ اس کے دل میں سوراخ تھا اور سوراخ بھی ایسا جس کا علاج بے حد مشکل ہے۔ اس کے باپ ابراہیم کو اندازہ تھا کہ بچی بیمار ہے اور یہ احساس بھی تھا کہ لڑکی کے دوا علاج کے لئے اس کی جیب میں کچھ بھی نہیں۔
پچھلے سال موسم خزاں میں سی اے آئی کی ایک ٹیم کورفے آئی۔ جس وقت یہ لوگ اسکول کا معائنہ کر رہے تھے، ابراہیم پھٹے پرانے کوٹ میں لپیٹ کر سکینہ کو وہاں لے آیا۔ گریگ اور اس کے ساتھیوں نے بچی کا معائنہ کیا۔ دبلی پتلی بچی گہری گہری سانسیں لے رہی تھی اور رطوبت سے بھرے پھیپھڑوں سے طرح طرح کی آوازیں نکل رہی تھیں۔ اس کا دل بے ڈھنگی چال چل رہا تھا جس کی ہر دھڑکن پر یہ گمان ہوتا تھا کہ اب رُکا اور اب رُکا۔ گریگ جب نیچے اسکردو آیا تو سکینہ کو ساتھ لے آیا تاکہ اسپتال میں اس کے ٹیسٹ ہو سکیں۔
وہاں ہر قسم کے ٹیسٹ ہوئے۔ ہر ایک کا ایک ہی نتیجہ نکلا، سکینہ زیادہ عرصے نہیں جئے گی۔ اتفاق سے اُنہی دنوں اٹلی کے کوہ پیماؤں کی ایک جماعت اسکردو میں موجود تھی جو دنیا کی گیارہویں سب سے اونچی چوٹی گیشربرم اوّل سر کرنے جا رہی تھی۔ یہ لوگ مقامی آبادی میں گھل مل گئے تھے اور چاہتے تھے کہ انہیں سی اے آئی کے فلاحی کام دکھائے جائیں۔ تنظیم کے بلتی منیجر نذیر اور خود گریگ نے ان اطالوی مہمانوں سے کہا کہ پہلے اس بچّی کو دیکھیں جس کا نام سکینہ بتول ہے۔ مہمانوں میں شامل خاتون انا لیزا نے لڑکی کا معائنہ کیا اور کہا کہ اس کے دل کا آپریشن کرنا ہوگا ورنہ اس کا بچنا مشکل ہے۔ گریگ نے انہیں بتایا کہ اس کی تنظیم جو خدمت انجام دے چکی ہے اس سے زیادہ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اس پر انا لیزا نے اعلان کیا کہ وہ کچھ کرکے رہے گی۔اب بچی کے باقاعدہ ٹیسٹ ہونے تھے تاکہ دل کو اچھی طرح پرکھا جائے۔ سی اے آئی نے ابراہیم اور سکینہ کو راولپنڈی پہنچایا جہاں دل کے مرض کے فوجی اسپتال میں اس کا معائنہ ہوا۔ تشخیص پریشان کن تھی، وہ یہ کہ آپریشن میں بھی جان جانے کا خطرہ ہے۔
انا لیزا حوصلہ نہ ہاری۔ اس نے اٹلی کے شہر میلان میں بچوں کے دل کے علاج کے بہت بڑے ماہر ڈاکٹر ایساندرو اور دوسرے ماہروں سے مشورہ کیا۔ انہوں نے بھی کہا کہ آپریشن خطرناک اور پیچیدہ ہوگا البتہ سکینہ کے بچ جانے کا امکان پچاس فیصد ہے۔ اٹلی کے ڈاکٹروں نے فیصلہ کیا کہ وہ مدد کریں گے اور جیسے بھی بنے گا، اخراجات کے لئے رقم فراہم کریں گے۔ادھر سی اے آئی کی مدد سے سکینہ اور اس کے والد نے پانچ مہینے راولپنڈی میں گزارے تاکہ بچی میں اتنی توانائی آجائے کہ وہ آپریشن کے دشوار مرحلے سے گزر سکے۔ تنظیم کے منیجر نذیر نے اس دوران پاسپورٹ اور ویزا حاصل کرنے کا کام شروع کیا اور مترجم کے طور پر خود ساتھ جانے کا فیصلہ کیا۔ اُدھر اٹلی والوں نے ہوائی سفر، خوراک اور دوا علاج کے لئے رقم جمع کرنی شروع کی اور تیرہ ہزار ڈالر اکٹھے کر لئے۔ فروری میں یہ تینوں اٹلی میں میلان کے ہوائی اڈے پر اترے۔ کمسن سکینہ شروع میں تو گھبرائی لیکن جب رضا کار لڑکیاں اور بچے اس سے کھیلنے اور تصویری کہانیاں سنانے کے لئے اس کے پاس آنے لگے تو اس کا دل بہل گیا۔
17 فروری کو آپریشن ہوا۔ اسپتال والے بتاتے ہیں کہ آٹھ ماہر سرجنوں نے آپریشن کیا جو اس اسپتال کے سب سے زیادہ پیچیدہ آپریشنوں میں شمار ہو گا۔ سرجری کے بعد انا لیزا بچی کو دیکھنے گئی اور اسے اپنے آنسو روکنا مشکل ہو گیا۔ سکینہ کے جسم میں ہر طرف طرح طرح کے پائپ اور تار لگے ہوئے تھے جیسے وہ بندھی پڑی ہو۔ بس یہ ضرور تھا کہ وہ زندہ تھی۔ اگلے روز انا لیزا نے اپنے بلاگ میں لکھا کہ سکینہ کی حالت ابھی تک اچھی نہیں، وہ بدستور آئی سی یو میں ہے، اسے تیز بخار ہے، سینے پر بلغم بہت ہے اور دل کے بائیں حصے میں خون کی گردش ٹھیک نہیں، اسے دعاؤں کی ضرورت ہے شاید انا لیزا کی یہ درخواست کام کر گئی۔ سکینہ اٹھ بیٹھی۔ ایک ہفتے کے اندر اندر وہ چلنے لگی اور اس کمرے میں جا پہنچی جو بچوں کے کھیلنے کے لئے مخصوص ہے۔ اٹلی کے میڈیا نے اس کی خبریں خوب نشر کیں اور چھ اخبار اور ایک ٹیلی وژن چینل والے اسپتال آئے۔
سکینہ کی خبریں شائع ہوئیں تو اس کے لئے لوگوں نے اور رقم دی۔ اس کی خاطر میراتھن ریس ہوئی جس میں لوگوں نے عطیات دیئے۔ بیس دن بعد یہ تینوں واپس پاکستان پہنچ گئے۔ نذیر نے بتایا کہ سکینہ اب بالکل ٹھیک ہے۔ اس کے سینے پر شگاف کا نشان ضرور ہے لیکن ٹانکے نکل گئے ہیں اور سب کچھ درست ہے۔ اب سکینہ کچھ وقت راولپنڈی میں اور اسکردو میں گزارے گی اور مئی تک یعنی یہ قصہ شروع ہونے کے پورے ایک سال بعد گاؤں والے اسے گود میں اٹھائے ناچتے گاتے کورفے میں داخل ہوں گے۔ قراقرم کی چوٹیاں انسان دوستی کا یہ جذبہ دیکھ کر فخر سے کچھ اور اونچی ہو جائیں گی اور ڈوبتے سورج کی سنہری کرنیں کے ٹو کے رخساروں پر افشاں بن کر پھیلیں گی۔
مگر ٹھہرئیے۔ یہاں تک پہنچ کر مجھے اچانک ایک خیال آیا۔ درد مند دل رکھنے والے جن فرشتہ صفت لوگوں کا اس کہانی میں ذکر آیا، سوچتا ہوں کہ وہ تو عیسائی تھے، وہ مسیحی تھے، ہم سے مختلف، ہم سے جدا، وہ ہمارے دوست نہیں ہو سکتے، ہم تو ان سے بہتر اور افضل ہیں، تو کیا کریں۔ کیوں نہ ان پر کوئی تہمت تھونپ دیں اور چل کر ان کی بستی پھونک دیں؟