Tuesday 30 July 2013

ںیرنگ خیال


وہ خط کے پرزے اُڑا رہا تھا
ہواؤں کا رخ دِکھا رہا تھا

بتاؤں کیسے وہ بہتا دریا
جب آ رہا تھا تو جا رہا تھا

کہیں مرا ہی خیال ہو گا
جو آنکھ سے گرتا جا رہا تھا

کچھ اور بھی ہو گیا نمایاں
میں اپنا لکھا مٹا رہا تھا

وہ جسم جیسے چراغ کی لَو
مگر دھواں دِل پہ چھا رہا تھا

منڈیر سے جھک کے چاند کل بھی
پڑوسیوں کو جگا رہا تھا

اسی کا ایماں بدل گیا ہے
کبھی جو میرا خدا رہا تھا

وہ ایک دن ایک اجنبی کو
مری کہانی سنا رہا تھا

وہ عمر کم کر رہا تھا میری
میں سال اپنا بڑھا رہا تھا

خدا کی شاید رضا ہو اس میں
اتمہارا جو فیصلہ رہا تھا 
بشکریہ  ںیرنگ خیال 

No comments:

Post a Comment

غیر اخلاقی تبصرے حذف کر دیے جائیں گے اپنا نام ضرور لکھیں تاکہ جواب دینے میں آسانی ہو