Monday 30 September 2013

مسعود ظفر علاء الدین

زلف بکھری جو ان کے شانے پر
ہوش بھی نہ رہا ٹھکانے پر

میں تو بکھرا تھا مثل سنگریزہ
شوخ نظروں کے تازیانے پر

آرزو تھی کہ ہم بھی گائیں گے
یاں تو بندش ہے گنگنانے پر

ہم نے سوچا تھا عشق کرتے ہیں
آگئی عقل اب ٹھکانے پر

1 comment:

غیر اخلاقی تبصرے حذف کر دیے جائیں گے اپنا نام ضرور لکھیں تاکہ جواب دینے میں آسانی ہو