Thursday 14 March 2013

خلق کہتی ہے جسے دل


خلق کہتی ہے جسے دل ترے دیوانے کا
ایک گوشہ ہے یہ دنیا اسی ویرانے کا
 
اک معمّہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
 
زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا
 
حُسن ہے ذات مری، عشق صفَت ہے میری
 
ہوں تو میں شمع مگر بھیس ہے پروانے کا

کعبہ کو دل کی زیارت کے لیے جاتا ہوں
 
آستانہ ہے حرم میرے صنم خانے کا
مختصر قصّہٴ غم یہ ہے کہ دل رکھتا ہوں
 
 
رازِ کونین خلاصہ ہے اس افسانے کا

زندگی بھی تو پشیماں ہے یہاں لا کے مجھے
 
 
ڈھونڈتی ہے کوئی حیلہ مرے مر جانے کا
 
تم نے دیکھا ہے کبھی گھر کو بدلتے ہوئے رنگ
 
آؤ دیکھو نہ تماشا مرے غم خانے کا
 
 
اب اسے دار پہ لے جا کے سُلا دے ساقی
 
یوں بہکنا نہیں اچھّا ترے مستانے کا
 
دل سے پہنچی تو ہیں آنکھوں میں لہو کی بوندیں
 
 
سلسلہ شیشے سے ملنا تو ہے پیمانے کا
ہڈّیاں ہیں کئی لپٹی ہوئی زنجیروں میں
 
لیے جاتے ہیں جنازہ ترے دیوانے کا
 
وحدتِ حُسن کے جلووں کی یہ کثرت اے عشق
 
 
 
دل کے ہر ذرّے میں عالم ہے پری خانے کا

چشمِ ساقی اثرِ مے سے نہیں ہے گل رنگ
 
 
دل مرے خون سے لبریز ہے پیمانے کا
 
 
لوح دل کو، غمِ الفت کو قلم کہتے ہیں
 
 
کُن ہے اندازِ رقم حُسن کے افسانے کا
ہر نفَس عمرِ گزشتہ کی ہے میّت فانی
زندگی نام ہے مر مر کے جیے جانے کا


No comments:

Post a Comment

غیر اخلاقی تبصرے حذف کر دیے جائیں گے اپنا نام ضرور لکھیں تاکہ جواب دینے میں آسانی ہو