Saturday 2 March 2013

ایک خوبصورت غزل


ہزار بار دبانے کو شہر یار اُٹھا
مگر یہ شور ِغریباں کہ بار بار اُٹھا

یہ ٹوٹ کر تو زیادہ وبال ِ دوش ھوئی
میں اٹھ پڑا تو نہ مجھ سے انا کا بار اُٹھا
...

یقین رکھنے لگا ھے جو عالم ِ دل پر
تو پھر علائق ِ دنیا سے اعتبار اُٹھا

عدو سے اگلی لڑائی کا دن تو طے کر لیں
چلے بھی جائیں گے شانوں پہ اپنی ھار اُٹھا

زمین ِحُسن بھی شق تھی سپہر ِعشق بھی شق
یہاں کسی سے نہ میری نظر کا بار اُٹھا

یہ بزمِ خاک نشیناں ھے سوچ کر بیٹھو
یہاں سے کوئی اُٹھا تو برائے دار اُٹھا

زمیں سہار نہ پائی مری شکست کا بوجھ
کہ جتنی بار گرا ھوں میں اُتنی بار اُٹھا

میں حُکم ِ ضبط کو نافذ نہ کر سکا دل پر
جہاں بھی ظُلم کو دیکھا ، وہیں پُکار اُٹھا

ملا کے خاک میں مجھ کو وہ جب چلا نیر
تو اُس کے پاؤں پکڑنے مرا غُبار اُٹھا

No comments:

Post a Comment

غیر اخلاقی تبصرے حذف کر دیے جائیں گے اپنا نام ضرور لکھیں تاکہ جواب دینے میں آسانی ہو