Saturday 16 February 2013

ہمارے بچپن کی سچائیاں

thanks to the dawn news for this story
 
بچپن میں جب ہم کہانیاں سنتے ہیں تو ہمیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ جب ہم بڑے ہو جائیں گے ہمارے بچپن کی سچائیاں تو خود
 ہمارے لئے ہی ایک کہانی بن جائیں گی۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب میں چھ سات سال کا تھا۔ ہم ایک درمیانے سائز کے مکان میں رہتے تھے۔ اس مکان کا دروازہ ایک انتہائی تنگ گلی میں تھا، جس کا ایک سِرا بازار میں کھلتا تھا جب کہ دوسرے سرے پہ ایک اور مکان کا دروازہ تھا جو اکثر بند ہی رہتا تھا۔ گلی محض ڈھ...ائی تین فٹ چوڑی ہوگی اور دونوں طرف موجود اونچی دیواروں کے باعث مزید تنگ محسوس ہوتی تھی۔ ہمارے گھر کا دروازہ گلی کے دوسرے سرے پہ موجود بند دروازے کے ساتھ ہی تھا۔
مجھے ہمیشہ گلی کے نکڑ سے اپنے گھر تک جانے میں بہت ڈر لگتا تھا۔ گلی میں داخل ہوتے ہی میں اس طرح تیز تیز چلنا شروع کر دیتا تھا کہ جیسے وہ لمبی دیواریں مزید تنگ ہو رہی ہوں اور میرے گھر تک پہنچنے سے پہلے ہی آپس میں مل جائیں گی۔ اس خوف کی وجہ جو بھی تھی لیکن یہ خوف اب بھی کبھی کبھار سامنے آ جاتا ہے۔ میرے خیال میں ہم سب کے لاشعور میں تنگ جگہوں کا خوف ازل سے موجود ہے۔

ہمارے مکان کی دوسری منزل پہ ایک ہی کمرہ تھا۔ اس کمرے کی ایک کھڑکی باہر اسی گلی میں کھلتی تھی لیکن کھڑکی اونچی ہونے کی وجہ سے مخالف سمت کی دیوار گلی کے پار کے ‘منظر’ کو روکنے میں ناکام تھی۔ پورے گھر میں میری واحد اٹریکشن وہ کھڑکی ہی تھی۔ ہلکے سبز روغن والے ان کواڑوں کا تعلق براہ راست میرے دماغ سے تھا۔ جیسے کسی میٹا فزیکل متوازی دنیا میں کھلنے والا ایک پورٹل ہوتا ہے۔
میرے لئے وہ پورٹل اس گلی کے خوف سے بھاگ نکلنے اور آگے موجود ‘کھلی’ فضا تک رسائی کا ایک ذریعہ تھا۔ شاید یہ میں ہی تھا یا پھر بچے ہوتے ہی ایسے ہیں، سنی سنائی یا پڑھی ہوئی کہانیوں کے تمام کردار اپنے انہی چند گھروں اور گلیوں کی محدود سی کائنات میں تلاش کر لیتے ہیں۔ میں اس کھڑکی سے باہر کا ‘منظر’ دیکھتے ہوئے ایسے کھو جاتا تھا جیسے کوئی شہزادہ اپنے قلعے نما محل کے سب سے بلند مینار پہ لہراتے جھنڈے کے ساتھ کھڑا دور تک پھیلی اپنے باپ کی سلطنت کا نظارہ کررہا ہو۔ قلعے کی فصیل پہ فخر سے اپنا دایاں پاؤں رکھے میں نیچے موجود اس گہری تنگ کھائی سے بھی بے خبر ہو جاتا تھا جس میں حفاظت کے طور پہ بڑے بڑے مگر مچھ چھوڑ دیئے جاتے ہیں۔

ہمارے شہر کےچھوٹے سے اس محلے میں گھروں کی چھتیں اس طرح ساتھ ملی ہوئی تھیں کہ کھڑکی سے دیکھو تو سب چھتیں ایک ہی مکان کی لگتی تھیں لیکن ان مکانوں کے چھوٹے چھوٹے بنیرے بعض اوقات بلندی میں فصیلوں کو بھی مات دے جاتے ہیں۔
ان کچی پکی چھتوں پہ کودتے، پتنگ اڑاتے بچوں میں مجھے کبھی کوئی دلچسپی نہیں محسوس ہوتی تھی۔ میری اپنی دنیا میں اس سے کہیں زیادہ دلچسپیاں تھیں۔ ہاں، ان بغیر پلستر کی دیواروں والی چھتوں سے پرے ایک سبز بنیرے والی چھت تھی۔ اس چھت میں مجھے ہمیشہ کچھ خاص بات لگتی تھی۔ وہ چھت میری اس محدود سی دنیا کا دوسرا سِرا تھی۔ اس کھڑکی سے نظر آنے والے آخری کنگرے تھے وہ۔ اُس چھت کی ایک دیوار سے باہر کی طرف جھکی ہوئی انگور کی بیل کو دیکھ کر مجھے یقین سا ہو گیا تھا کہ اس محل نما گھر میں ہوا میں معلق باغات بھی ہیں۔ میرے نزدیک چھتوں اور دیواروں کے اس گنجل میں موجود وہ خوبصورت، نفیس اور کشادہ چھت کسی محل کی ہی ہو سکتی تھی۔

یوں تو برسات کے موسم میں میرے گھر والے پریشان ہی رہتے تھے۔ کبھی بارش کا پانی گلی میں کھڑا ہوتا تو کبھی چھتیں ٹپکنا شروع کر دیتیں لیکن میرے لئے برسات میں ایک خاص ہی کشش تھی۔ چھت کے پرنالے سے گلی میں گرتے اور نالیوں میں دوڑتے ہوئے پانی کی آواز اس کھڑکی سے گزر کر جب مجھ تک پہنچتی تو ایسے سنائی دیتی جیسے دور جنگلوں میں آبشاریں بہہ رہی ہیں۔ ویسے جنگل جیسے میری کہانیوں میں تھے، جن میں درندے نہیں بلکہ آسمان سے فرشتے اترتے تھے۔ ایسے میں ہوا میں معلق اس محل کے باغات کا تصور، (جو کہ اس کھڑکی کے ساتھ ہی مشروط تھا بالکل ایسے جیسے موجودہ دور میں آگمنٹیڈ ریئلیٹی!)۔

کشادہ چھت پہ ٹہلنے کا انجانا احساس، ممٹی کے نیچے بندھی پینگ پہ بیٹھنے کی خواہش، جو اکثر خالی ہی جھولتی رہتی تھی، مجھے اپنے گھر اور گھر والوں کے مسائل سے دور کر دیتی تھی۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ وہاں کون رہتا ہے، کب سے رہتا ہے، کب جائے گا، میں تو بس اس محل کو دیکھنا چاہتا تھا۔ اس چھت پہ ٹہلنا چاہتا تھا۔ اپنی اس کھڑکی سے پرے ‘اپنی دنیا’ ایکسپلور کرنا چاہتا تھا۔ لیکن اماں مجھے گلی میں زیادہ دیر نکلنے نہیں دیتی تھیں۔ سکول سے واپسی پر یا پرچون والے سے کوئی چیز لاتے ہوئے، اماں کی انگلی پکڑے میں اپنی گردن چاروں طرف گھماتا رہتا تھا اور نظریں ہمیشہ اس محل کے سنہری پھاٹک کو ڈھونڈتی تھیں۔

چھت پہ کھڑے ہو کر بھی میں نے کئی بار چھتوں کی ان بھول بھلیوں کو بازار اور گلیوں پہ مَیپ کرنے کی ناکام کوشش کی تھی لیکن ہمیشہ اپنی اس تنگ خوفناک گلی سے باہر نکلتے ہی دنیا بدل جاتی تھی۔ وہ کھڑکی اور اس سے نظر آتا باہر کا منظر ہمیشہ ایک متوازی دنیا کی طرح میرے دماغ میں موجود رہا۔ البتہ یہ بتانا اب ذرا مشکل ہے کہ کب اور کیوں وہ کھڑکی ہمیشہ کیلئے بند ہوئی اور میرا بچپن بھی اسی کھڑکی سے باہر رہ گیا۔

انسان کے خواب ہمیشہ اس کے ساتھ جوان تو ہوتے ہیں لیکن اس وقت تک وہ بچپن کے خواب کی طرح آزاد نہیں رہتے۔ وہ گھر میرا خواب تھا۔

آج جب بیس سال بعد ہم ملے ہیں تو پوری رات گھر، محلے، شہر کی باتوں میں ہی گزر گئی۔ پاکستان سے باہر بسنے والے لوگ جب اپنوں سے بات کرتے ہیں تو پتا نہیں کہاں کہاں کی خبریں پوچھتے ہیں۔ اپنا حال چھپانے کی کوشش میں وہ اس کا حال بھی پوچھتے رہتے ہیں جس سے کبھی تعلق بھی نہ رہا ہو۔

جہاں آنکھیں صرف خواب ہی دیکھتی ہیں، وہاں ان کی ادھورے خوابوں کو پانے کی جدوجہد کون سننا چاہے گا۔ اپنے خوابوں کی تلاش میں میں نے کہاں کہاں کی خاک چھانی تھی، یہ راز میرے ساتھ ہی دفن ہونا ہے۔ میں خاموشی سے بس سن رہا تھا کہ وہ بولا: “تمہارے جانے کے چار سال بعد ہم نے محلے کا سب سے بڑا مکان خرید لیا تھا۔ وہی جو ہمارے اوپر والے کمرے کی کھڑکی سے نظر آتا تھا، جس کی سبز بنیروں والی چھت پہ ایک پینگ بھی لٹکی رہتی تھی۔”

No comments:

Post a Comment

غیر اخلاقی تبصرے حذف کر دیے جائیں گے اپنا نام ضرور لکھیں تاکہ جواب دینے میں آسانی ہو