Wednesday 20 February 2013

پردیس برا ہے

وہ کہتے ہیں  پردیس برا ہے تو چھوڑ  کر کیوں نہیں آ جاتے کاش میں آ سکتا
ہاں میں ہر شام گھر جانا چاهتا ہوں ان بوڑھے ماں باپ سے ملنا چاہتا  ہوں
اس معصوم بیٹے سے کھیلنا چاہتا ہوں جو فون پر ابّو ابّو پکارتا ہے 
اس ماں کے کندھے  پر سر رکھ  سارے دکھ کہنا چاہتا ہوں
اس بیوی سے ملنا چاہتا ہوں جو کیی برس سے میرے انتظار میں ہے
اس بہن کے سر پر ہاتھ رکھنا چاہتا ہوں جسے میں کب سے ملا نہیں 
ماں کے ہاتھ کی وہ لسی  پینا چاہتا ہوں جو مجھے کویت  دبیی  عراق کے کسی برگر کنگ پر نہیں ملتی 
وہ سرسوں کا ساگ  جو کسی پانچ ستارہ ہوٹل پر نہ ملا 
وہ مکیی کی روٹی جو کہیں نہ ملی  اور اس سب سے تو میں صبر بھی کر لوں کے کھانے کو تو انسان کچھ بھی کھا کر زندہ رہ لیتا ہے 
مگر وہ گھر کا آنگن وہ مٹی کی خوشبو جو کہیں نہیں ملتی اسی وجہ سے تو آنا چاھتا ہوں مگر کوئی یاد کرا دیتا ہے 

یار وہ گاڑی کی کچھ قسطیں باقی ہیں ابھی 

No comments:

Post a Comment

غیر اخلاقی تبصرے حذف کر دیے جائیں گے اپنا نام ضرور لکھیں تاکہ جواب دینے میں آسانی ہو